Subscribe Us

header ads

مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ ترقی کی رسی سے تبدیلی کے راستے میں بند نہیں باندھا جا سکا۔ ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ لے کر چلنے والی جماعت اپنے مضبوط سیاسی گڑھ کے علاوہ اہم ترین نشستیں گنوا بیٹھی۔ شہباز شریف کی معذرت خواہانہ پالیسیوں کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو بھگتنا پڑا۔ جیل جانے کا کوئی فائدہ بھی نظر نہیں آتا جبکہ احتساب کا عمل نئی حکومت کے آنے سے تھمے گا نہیں بلکہ اور سبک رفتاری سے اپنا کام جاری رکھے گا۔ اس شکست کا تجزیہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس بار ن لیگ نے اپنے مزاج کے برخلاف کام کرنے کی کو شش کی تھی؛ لیکن نتیجہ توقعات کے برعکس نہ نکلا۔

یہ مانا جاسکتا ہے کہ اہم رہنماؤں کی گرفتاری سے ن لیگ کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا، مگر اس صورتحال سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کےلیے ضروری تھا کہ مزاحمتی و مذمتی اندازِ بیان اختیار کرنے کے بجائے جارحانہ انداز اختیار کیا جاتا اور عوام کو مظلومیت کا یقین دلایا جاتا۔ نواز شریف صاحب بارہا کہتے رہے کہ

’’مجھے زبان کھولنے پر مجبور نہ کریں، ورنہ میں بتا دوں گا کہ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔‘‘

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھٹو صاحب نے بھی ایوب حکومت سے علیحدگی اختیار کرتے وقت اپنے سینے کو بہت سے رازوں کا امین بتایا تھا، مگر قوم ان رازوں کا پتہ آج تک جاننا چاہتی ہے جو اب تقریباً ناممکن ہے۔ تو اگر نواز شریف بھی محض ایک سیاسی بات کررہے تھے تو عوام پر واقعی کوئی اثر نہیں ہوا، اور اگر محکمہ زراعت سمیت خلائی مخلوق والی بات سچی تھی تو پھر ووٹرز کو باہر نہ نکالنے پر شہباز شریف سمیت ہر اہم رہنما سے بازپرس ہونی چاہیے۔

ن لیگ کبھی بھی ایک مزاحمتی جماعت نہیں رہی، جبکہ مشکل وقت میں اس کے رہنماؤں کا طرز عمل بھی سوالیہ رہا ہے۔ لہذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نواز و مریم کی گرفتاری کے وقت کی ناکام حکمت عملی پر غور کرتے ہوئے انتخابی مہم کو مہمیز دیا جاتا۔ لیکن ن لیگ اور پی پی پی میں یہی فرق ہے کہ آج بھی بلاول بھٹو کے نعرے بھٹو شہید کی پھانسی سے شروع ہو کر بینظیر کے قاتلوں کو پکڑنے کے اردگرد طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ ن لیگ کے ووٹر سمیت قائدین کا ابہام ہی ختم ہونے میں نہیں آرہا جس کا خمیازہ اس طرح بھگتنا پڑ رہا ہے کہ حمزہ شہباز نے عمران خان سے مبینہ درخواست کرتے ہوئے پنجاب میں حکومت بنانے کا کہا ہے اور 2013 کا اپنا احسان یاد دلایا ہے کہ ہم نے آپ کو خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے دی تھی۔

اگر ووٹر اور ووٹ کو عزت دینے کی بھول بھلیوں میں ن لیگ گم ہو کر رہ گئی تو اس کا اثر ملکی سیاست پر سے ختم ہو کر رہ جائے گا کیونکہ ایک وفاقی جماعت ہونے کے ناطے ن لیگ کو اپنے ووٹر کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ ان تمام نظریاتی لوگوں کے سپنے بھی پورے کرنے ہوں گے جو آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ خلائی مخلوق سمیت تمام بالادست قوتوں کو للکارنے والا شخص صرف نواز شریف ہی ہے، جو سول بالادستی کا خواب ساتھ لیکر چل رہا ہے اور ان عینیت پسندوں کا نواز شریف پر اطمینان کا اظہار ن لیگ کو پڑنے والے تمام ووٹ ہیں جن کی تعداد 1 کروڑ 28 لاکھ ہے؛ جو پاکستان تحریک انصاف سے صرف 30 لاکھ کم ہے۔

دو عملی کی پالیسی کے بجائے ن لیگ کے تمام قائدین کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مسلسل 3 سال کے میڈیا ٹرائل اور اندرونی و بیرونی دباؤ کے باوجود ایوان میں 65 نشستیں حاصل کرنا نواز شریف کی مقبولیت کی ہی بدولت ہے، وگر نہ میموگیٹ اور 2 وزرائےاعظم کی قربانی کے بعد بھی پی پی پی خود کو سندھ تک محدود ہونے سے نہیں بچا پائی تھی؛ اور جس کو ایک زمانے میں مرحوم و مغفور کہا جانے لگا تھا۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ توانا آوازوں کے ساتھ ان تمام قوتوں کا احتساب کیا جائے جو فارم 45 نہ دینے سمیت ادھورے نتائج کے توسط سے ہی عمران خان کے وزیراعظم بننے کا اعلان میڈیا پر کروا چکی تھیں۔ اگر ن لیگ اب نواز شریف کے بیانیے سے روگردانی کی مرتکب ہوتی ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں اکثریت کے باوجود ن لیگ کی حکومت بنتی نطر نہیں آرہی، اور ق لیگ ن لیگ کے اندر دراڑ ڈالنے میں ایک بار پھر کامیاب ہو جائے گی۔ تمام نادیدہ قوتیں اس بات سے واقف ہیں کہ ن لیگ کو اقتدار سے باہر رکھ کر اپنی مرضی کا فیصلہ کروانا بہت آسان ہوتا یے، اور اس کا مظاہرہ و مشاہدہ وہ 2008 تا 2013 کے دورانیے میں کر چکی ہیں۔ لہذا اب ابہام پسندانہ ذہنیت سے پیچھا چھڑاتے ہوئے قومی حکومت کے قیام والی سوچ سے باہر نکلنا ہو گا، تاکہ جو خواب ادھورا ہے اسے پورا کیا جاسکے؛ اور پھر کوئی اندھا کباڑی اپنے خواب بیچنے کی جرأت نہ کرسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2O4CTBG
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments