اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد پہلی تقریر میں جن باتوں کا تذکرہ کیا تھا اس سے عوام میں تبدیلی کی ایک امید پیدا ہو چکی تھی۔ تاہم بعدازاں حکومت کی جانب سے اب تک کئے گئے عملی اقدامات سے عوام میں ایک الجھن سی پیدا ہوئی ہے، کیونکہ حکومت نے ہر کام کیلئے بیوروکریٹس پر مشتمل ٹاسک فورس قائم کرنا شروع کی ہے، اس سے لگتا ہے کہ حکومت کے پاس نہ صرف اہل ممبران کی کمی ہے بلکہ حکومت پوری طرح بیوروکریٹس کے چُنگل میں پھنس چکی ہیں۔
حکومت نے ابتداء میں جو اعلانات کئے تھے ان میں سے اکثر اعلانات قابل تعریف تھے لیکن اس دوران حکومت اور ان کی ٹیم سے جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اس سے لگتا ہے کہ حکومت اور اس کے وزراء کنفیوژن کا شکار ہیں خاص طور پر حکومت تاحال اپنی معاشی پالیسی کی سمت متعین کرنے میں ناکام رہی ہے اور یکے بعد دیگرے عوام پر مہنگائی کے بم برسانا شروع کردیئے ہیں۔
ابھی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے بم سے اٹھنے والی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ 178 ارب روپے کے ٹیکسوں پر مبنی منی بجٹ پیش کردیا گیا جس سے آنے والے دنوں میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہونے کا اندیشہ ہے اور آٹھ ہزار سے زائد اشیاء پر ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی شرح دو فیصد سے بڑھا کر تین فیصد جبکہ سولہ سے زائد درآمدی اشیاء پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح میں بھی پانچ سے سات فیصد اضافہ کردیا گیا ہے، اسی طرح نان فائلرز کیلئے بینکوں سے رقوم نکلوانے پر بھی ن لیگ کی حکومت کی جانب سے دیا جانے والا ریلیف واپس لے کر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.4 فیصد سے بڑھا کر 0.6 فیصد کردی گئی ہے۔
یہ تمام اقدامات کرنے کیلئے وہی وجوہات اور جواز پیش کئے گئے ہیں اور ایوب خان کے دور سے یہ الفاظ سُننے کو مل رہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ معاشی حالات بہت خراب ہیں، ملکی معیشت کو آکیسیجن فراہم کرنے کیلئے فوری ہنگامی طور پر سخت فیصلے کئے جا رہے ہیں اور پھر وہ فیصلے مستقل ہوجاتے تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی ضرور آتی رہی مگر عوام پر ڈالے گئے عارضی بوجھ کی واپسی کیلئے نہیں بلکہ مزید بوجھ ڈالنے کیلئے اور اب تک یہی ہوتا چلا آرہا ہے اور ابھی بھی یہی کچھ ہوتا دکھائی دیا جو اس سے پہلے وزراء خزانہ پیش کرتے رہے ہیں۔
تبدیلی آئی ہے تو صرف آواز،انداز، بیان اور مقام کی تبدیلی آئی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر جب پارلیمنٹ ہاوس کے کمیٹی روم نمبر دو میں پوسٹ منی بجٹ پریس کانفرنس کررہے تھے تو پی بلاک آڈیٹوریئم میں شوکت عزیز، نوید قمر، سلیم ایچ مانڈوی والا، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور اسحاق ڈارکی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے مناظر نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے لیکن کمال مہارت سے 178 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں اگرچہ حکومت کا دعوٰی ہے کہ چالیس سے پچاس ارب روپے کا ریلیف بھی دیا گیا ہے اور اس طرح خالص نئے ٹیکس سوا کھرب روپے کے لگائے گئے ہیں مگر پھر بھی دعوٰی یہی کیا گیا کہ عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔
صرف امیر لوگوں پر بوجھ ڈالا گیا ہے لیکن جو ہزاروں اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی، ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی عائد کی گئی ہے یا ایک فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے اس سے جو مہنگائی کا طوفان برپا ہونے جا رہا ہے اس سے کیا امیر اورکیا غریب کسی کو امان ملنے والی نہیں ہے بلکہ غریب زیادہ متاثر ہوگا، یہی نہیں ابھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہونا باقی ہے جس کی نیپرا پہلے ہی منظوری دے چکا ہے اور اب حکومت نے گزٹ نوٹیفکیشن کے اجراء کیلئے فیصلہ کرنا ہے کہ اضافہ کتنا کرنا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے دو روز قبل گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی کا بم گرا دیا ہے۔
حکومت کے ان اقدام سے لگتا ہے کہ نئے پاکستان میں بھی عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا بلکہ پرانے پاکستان کے مقابلے میں نئے پاکستان میں عوام کیلئے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور ان کے معاشی حالات ابتر ہوں گے۔ اگرچہ تحریک انصاف ملک سے غربت، مہنگائی، بیروزگاری کے خاتمہ کا نعرہ لگا کر انتخابی میدان میں اتری تھی لیکن اب حکومت میں آنے کے بعد وہ اپنے وعدوں اور اعلانات سے پیچھے ہٹ رہی ہے، حکومت کی اب تک کی معاشی پالیسی بالکل مختلف سمت پر چل پڑی ہے، نہ ان کی معاشی پالیسی سے عوام مطمئن ہے اور نہ ان کے اپنے لوگ جس سے لگتا ہے کہ آنے والے سالوں میں ملک کی معاشی صورتحال مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔
دوسری طرف حکومت نے کفایت شعاری کے نام پر وزیر اعظم ہاوس میں موجود سرکاری گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی کا عمل شروع کردیا ہے اس کے ساتھ یہ اعلان کیا ہے کہ گورنرز اب گورنر ہاوسز میں قیام نہیں کریں گے، گورنر ہاوسزعوام کیلئے کھول دئیے جائیں گے اور ان کو تعلیمی ادارے بنا دیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا گورنر ہاوسز کو عوام کیلئے کھولنے یا گورنر ان عمارتوں میں نہ ٹھہرنے سے کفایت شعاری آئے گی؟ ایسا نہیں ہے، محض گورنر ہاوسز کو عوام کیلئے کھولنے سے کفایت شعاری نہیں آئے گی، بلکہ اس کیلئے ٹھوس معاشی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کرایہ کے گھروں میں رہ کر صدر، وزیر اعظم یا گورنزاخراجات نہیں کریں گے، صدر ہاوس، وزیر اعظم ہاوس اور گورنر ہاوس کسی ایک شخص یا حکومت کی ملکیت نہیں ہے یہ ریاست کی ملکیت ہے اور یہ ہماری ضرورت ہے جہاں ہمارے حکمراں باعزت طریقے سے رہتے ہیں، وہاں رہ کر بھی تو یہ شخصیات کفایت شعاری کرسکتے ہیں، اپنے اخراجات میں کمی لاسکتے ہیں مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایمایف)کا جائزہ مشن بھی ستائیس ستمبر سے ایک ہفتے کیلئے پاکستان آرہا ہے اور منی بجٹ کا آنا بھی آئی ایم ایف کی ہی برکات ہیں اور بڑے زلزلے سے قبل آنے والے جھٹکے ہیں اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
اگر آئی ایم ایف سے پروگرام لینے جاتے ہیں تو بڑا زلزلہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی صورت آئے گا جس کے آفٹر شاکس نہ صرف اس حکومت کے باقی ماندہ چار سال گیارہ ماہ کے دوران محسوس ہوتے رہیں گے بلکہ اس حکومت کی میعاد پوری کرنے کے بعد بننے والی نئی حکومت کو محسوس ہوں گے اورعوام کو پھر سے ایک وزیرخزانہ کی یہی تقریر اور دعوے سُننے کو ملیں گے اور پھر کوئی فنانشل سرجن آکر ملکی معیشت کا بڑا آپریشن کرکے مریض کو آئی سی یو سے نکالنے کیلئے اسی طرح کے اقدامات کے اعلانات کرے گا اس لئے ضرورت ہے کہ ملکی مفاد میں ایسے فیصلے کئے جائیں جن کے دوررس مثبت اثرات مرتب ہوں۔
The post بیورو کریٹس پر مشتمل ٹاسک فورسز مسائل حل کر سکیں گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xl0hVY
via IFTTT
0 Comments