کسی بھی حریف کےلیے صورتحال اس وقت انتہائی سنگین ہوجاتی ہے جب اسے یہ ادراک ہو جائے کہ اس کا دشمن معاشی طور پر مستحکم ہو رہا ہے۔ ایوب خان کے دس سالہ دورِ حکومت میں نومولود ریاستِ پاکستان نے خوب ترقی پائی، صنعتوں میں اضافہ ہوا، پہلا باقاعدہ تحریری آئین مرتب ہوا۔ مشینری مکمل طور پر حرکت میں تھی۔ درآمدات سے برآمدات کئی گنا بڑھ گئیں۔ اس طرح ملک میں روزگار کے مواقع اور صنعتی پیداوار سے خوشحالی آئی۔ پاکستانی تاریخ کا یہ سب سے سنہرا دور تھا کیوں کہ اس وقت پاکستانی بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور عوام سب ایک پلیٹ فارم پر صرف ملک کی ترقی و خوشحالی، سالمیت و استحکام کےلیے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
اس دور میں ہم نے جرمنی کو ایک خطیر رقم کی امداد دی جس کی وجہ سے جرمنی آج بھی پاکستان کا شکر گزار ہے۔ لیکن جرمنی اس ایک امداد کے بعد ترقی یافتہ ہوتا گیا اور پاکستان ترقی پذیر۔ اسی طرح چین بھی آج سپر پاور بن چکا ہے جو معاشی و اقتصادی جنگ میں تمام ممالک کو شکست دے چکا ہے۔
لیکن پاکستان کا معاشی استحکام دشمن کو برداشت نہ ہوا اور اس نے اپریل 1965 میں ہلا بول دیا۔ اس کے نتیجے میں بھارت کا بیشتر سرحدی حصہ پاکستان کے قبضے میں آگیا۔ لیکن اقوام متحدہ نے بھارت کا ساتھ دیا اور اس طرح عالمی قوانین کی پاسداری کی وجہ سے وہ حصہ بھارت کو لوٹانا پڑا۔ اس وقت نہ تو پاکستان کے پاس عسکری طاقت بھارت کے برابر تھی اور نہ ہی ٹیکنالوجی۔ لیکن ملی طاقت اور اسلامی جذبے کی بنا پر بھارت کو شکست فاش ہوئی۔ اس کا سب سے برا اثر دونوں ممالک کی معیشت پر پڑا۔ بھارت یہ جان گیا کہ اس قوم کو براہِ راست شکست دینا مشکل ہے تو اس نے یہاں پر لوگوں سے عقیدت و جذبات کا کھیل رچایا۔
بنگلہ دیش میں لسانی، قومی و مسلکی تعصب کی چنگاری جلائی۔ یہ چنگاری اس قدر بھڑکی کہ اس نے سارے وطن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کیونکہ بنگلہ دیش کا پٹ سن، چاول اور دیگر اشیاء پاکستان کی کل آمدنی کے ساٹھ فیصد سے زائد تھیں، اسی لیے بنگلہ دیش کو الگ کرنا دشمن کےلیے اہم چیلنج تھا۔ خود ساختہ واقعات رونما کروا کر اقوام متحدہ میں شور مچایا کہ اسے پاکستان سے خطرہ ہے۔ بنگلہ دیش کے لوگوں پر پاکستان ظلم کر رہا ہے اور ہمارے خلاف جنگ کرنا چاہتا ہے۔
اس طرح پاکستان کی فضائی رسد، بنگلہ دیش میں رکوا دی۔ سقوط ڈھاکہ پاکستان کےلیے نہ صرف معاشی طور پر بلکہ انتظامی طور پر بھی انتہائی برا ثابت ہوا۔ ادھر اقوامِ متحدہ نے جو پاکستان کے ساتھ متعصبانہ رویہ روا رکھا، اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
1998 میں پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کا کامیاب تجربہ کیا تو پوری دنیا پاکستان مخالف ہو گئی۔ بھارت نے واویلا کیا اور بھارت نواز ریاستوں نے خوب شور مچایا۔ اقوام متحدہ نے، جو بھارت، اسرائیل، امریکا اور روس پر ایٹمی دھماکوں اور اسلحہ کی خرید و فروخت پر پابندی نہیں لگاتا لیکن صرف پاکستان اور اسلامی ممالک پر پابندیاں لگاتا ہے، پاکستان کے بارے میں دوہرا رویہ اپنایا۔ پاکستان پر معاشی و اقتصادی پابندیاں عائد کرکے ایک بار پھر پاکستان کو کمزور کرنے کی تیاریاں کی گئیں مگر ’’جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے۔‘‘ سعودیہ عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے تعاون اور امداد باہمی کے جذبے سے پاکستان کا اس مشکل وقت میں ساتھ دیا۔
دشمن جب اپنے تمام مذموم عزائم میں ناکام ہوا تو اس نے پاکستان میں غداروں کو پالا اور انہیں خریدا۔ پاکستان میں انقلاب کی بات کی گئی اور جمہوریت کے دعویدار اٹھ کھڑے ہوئے۔ حسن نثار جیسے دانشوروں نے ان نعروں اور غلیظ طرزِ حکمرانی کی ترویج کےلیے ایسے مضامین لکھے جنہوں نے نوجوانوں کو ابھارا۔ نوجوانوں کو مغربی گھٹیا ترین فلسفہ اور وہاں کی رنگینیاں دکھلا کر قائد کے عزم اور اقبال کے تصور سے دور کیا؛ اور یوں ایک نئے لبرل معاشرے کی بنیاد پڑی۔ مسلک، ذات پات اور رنگ و نسل کا تعصب پھیلایا گیا حالانکہ اسی دور میں مغربی معاشرے میں عورتیں اپنے حقوق کےلیے آواز بلند کر رہی تھی، عین اسی طرح کے حقوق مانگ رہیں تھیں جس طرح اسلام میں دیئے گئے ہیں۔ لیکن اس غلاظت نے پاکستان میں نوجوانوں کو اس طرح لپیٹ میں لے لیا کہ اسے ملک و ملت اور اسلام کا شعور ہی نہ رہا۔
ملک میں غدار برسر اقتدار آتے رہے، فوج کے خلاف بغاوت کو ترویج اور ملکی سالمیت کو تار تار کرتے رہے لیکن نوجوان نسل خوابیدہ مغربی رنگینیوں میں گم سب سے لاعلم رہی۔
یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ہمارا اپنے پاؤں پر کھڑے رہ پانا مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن وہ طاقتیں جن کی جڑیں پاکستان میں بہت گہری پھیل چکی ہیں، آج بھی اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کےلیے ڈٹی ہوئی ہیں۔ بڑے اشرافیہ جو پاکستانی معیشت کا ستون ہیں، دراصل دشمنوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اتنی کاوشوں کے باجود پاکستان میں روزگار کا گراف دن بدن نیچے آتا جا رہا ہے۔
عمران خان کی پالیسیاں اور ملک کے ساتھ محبت 1965 کا سنہرا دور یاد دلا رہے ہیں۔ پاکستان کو معاشی سطح پر استحکام دلانے اور کشمیر سمیت دیگر خارجہ معاملات پر ٹھوس خارجہ پالیسیاں اس وقت دشمن ممالک کو ناگوار گزر رہی ہیں۔ اس نے ہمیشہ یہی چاہا ہے کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار رہے اور کبھی بھی مضبوط ملت بن کر نہ ابھرے۔ اس میں اقوام متحدہ کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور بھارت نے بھی کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ممبئی حملہ ہو یا پٹھان کوٹ حملہ، سب کا الزام بغیر سوچے پاکستان پر لگا دیتا ہے اور اتنا واویلا مچاتا ہے کہ جھوٹ بھی سچ لگنے لگ جائے۔ اور اب پلوامہ حملے کو بھی وہ ہتھیار بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ کشمیر میں نہ تھمنے والی تحریک آزادی، پاکستان کا ٹھوس مؤقف، معاشی استحکام، اقوام متحدہ کے سامنے کشمیر میں بھارتی فوج کی غیر انسانی سرگرمیوں کے ثبوتوں کے ساتھ کھل جانا، کلبھوشن یادیو کے کیس میں پاکستان کا ٹھوس مؤقف اور ثبوت بھارت کو بہت چبھ رہے ہیں۔
پلوامہ حملے کا الزام پاکستان پر لگنے سے پہلے ہی بھارتی اپوزیشن رہنماؤں اور دانشوروں نے مودی حکومت کی اس پالیسی پر سوال اٹھا دیئے ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انتخابات قریب آرہے ہیں اسی لیے بھارتی عوام کی ہمدردی سمیٹنے کےلیے مودی ایسی ہوش ربا حرکات کر رہا ہے، لیکن میں یہ نہیں سمجھتا۔ بات اس بار کہیں بڑھ کر ہے!
ہمیں 65 اور 71 کے واقعات کے محرکات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکا، اسرائیل، بھارت اور ایران ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، اس پر دو ٹوک مؤقف اپناتے ہوئے اقوام متحدہ میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ اگر بھارت جنگ چاہتا ہے تو ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ جنہیں ہم اپنے برادر ممالک سمجھتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ برادر ہی ہوں۔ ان کے بارے میں بھی پاکستان کو سوچنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post یہی ڈٹ جانے کی گھڑی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2tylbhK
via IFTTT
0 Comments