’’مس سعدیہ! آرام سے بیٹھ جاؤ، بس صفائی کی فکر نہ کرو، بابا ابھی مبینہ ادھر ہے۔ بس توُ دیکھ! ہم پر بھروسہ کر۔‘‘

’’مبینہ! پھر آپ نے ’تُو‘ سے بات کی۔ دیکھیے اسکول میں بچے اس سے کیا سیکھیں گے؟‘‘

(مبینہ کا زور دار قہقہہ) ’’ارے بابا ان سے تو اپنی دوستی ہے، دیکھ وہ اِدھر نہیں ہیں۔‘‘

’’اف! مبینہ سچ میں آپ کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ دیکھ نہیں دیکھیے کہہ دیتیں تو کیا ہوجاتا۔‘‘ مبینہ ہنستے ہوئے، ’’ارے چل توُ جا! معافی میری بہن۔ آپ پیار سے دیکھو تو دیکھئے ہی بولوں گی، وہ کیا بولتے ہیں انگریجی میں ’سوری۔‘ پر تو کبھی میرے کام سے خوش نہیں ہوگی۔ ﷲ سائیں تجھے تیرے گھر کا کر دے تو وہاں جاکر اس کی فکر کر۔‘‘

’’مبینہ بس!‘‘

’’ارے بابا! اتنی اچھی دعا دے رہی ہوں، اور تُو آمین بھی نہیں کہتی۔‘‘

تو جناب یہ ہے مبینہ۔ میرے اسکول میں کام کرنے والی ایک ماسی جو وقت سے پہلے اسکول پہنچتی ہے، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بیماری میں بھی چھٹی نہیں کرتی۔ بڑے ہوں یا چھوٹے، سب سے ان کی دوستی ہے۔ جب وہ کچھ دیر خاموش ہوجائے تو ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ بھئی ’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟‘‘

مبینہ کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو بظاہر بے حد زندہ دل ہوتے ہیں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہمیشہ سجی رہتی ہے۔ وہ دوسروں کے چہروں پر بھی مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں۔ مگر اس خوش طبعی کی وجہ ہرگز یہ نہیں کہ وہ بہت خوش و خرم زندگی گزار ہے ہیں یا ان کا ماضی بہت حسین ہے۔

ایک روز ان سے میں نے ذاتی نوعیت کا سوال ان کی دوسری شادی کے انکشاف ہونے پر کیا تو وہ ایک دم سے غم زدہ ہوگئیں اور مجھے اپنے جسم پر کلہاڑی سے کئے گئے وار دکھا ڈالے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد میں نے پوچھا کہ یہ کیوں کر آپ کے ساتھ ہوا؟ تو مبینہ نے اپنی دکھ بھری داستان سنا ڈالی۔

مختصراً ہوا یوں کہ مبینہ کی شادی اٹھارہ برس کی عمر میں ماموں کے بیٹے سے کردی گئی۔ مبینہ کا تعلق اندرون سندھ سے ہے۔ مبینہ کا سابقہ شوہر نہایت شکی، جاہل اور ظالم انسان تھا۔ بقول مبینہ، ’’صرف وہی نہیں بلکہ میری ساس بھی مجھے مارتی پیٹتی اور جھوٹی شکایتیں لگاتی،‘‘ اور اس پر مستزاد میاں سے ناراض میکے میں بیٹھی نند بھی جلتی پر تیلی کا کام کرتی۔ مبینہ نے اپنے حوصلے اور برداشت کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’مس سعدیہ! مجھے تو اس نے مار ہی دیا تھا مگر مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے۔ میں بچ گئی اور ﷲ سائیں نے بچوں کی خاطر میری جان بچا دی۔‘‘

مبینہ کا کہنا تھا کہ میکے آنے کے بعد اس کے گھر والوں نے سابقہ شوہر پر مقدمہ کردیا، اس کا علاج کروایا اور گھر بٹھا لیا۔ مگر مبینہ کچھ مہینوں بعد اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر میکے سے دوبارہ سسرال روانہ ہوگئی۔ لیکن اس کے شوہر کا رویہ نہ بدلا اور مارنے پیٹنے کاسلسلہ جاری رہا۔ تنگ آکر مبینہ اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنی بہن کے پاس کراچی آگئی۔ مبینہ نے یہاں آکر مزدوری کی، گھروں میں کام کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالا۔

پھر کچھ عرصہ بعد سابقہ شوہر کراچی آگیا اور اس کے ساتھ رہنے لگا۔ لیکن چند روز میں ہی اپنی پرانی خصلت پر اتر آیا۔ اس بار مبینہ نے اس کے تشدد آمیز رویّے سے تنگ آکر طلاق لے لی۔ اس عرصے میں اس کے سب بچے بالغ ہوچکے تھے۔ لڑکے برسرِ روزگار تھے مگر وہ گاؤں نہیں جاسکتی تھی کیونکہ وہاں پر کاری کا الزام لگا کر سابقہ شوہر سے جان کا خطرہ تھا۔ اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ مبینہ کو شرافت اور پاک دامنی ثابت کرنے کےلیے دوسری شادی کرنی پڑی کیونکہ ہمارا معاشرہ تنہا عورت پر طرح طرح کے شکوک و شبہات کا کھلے عام اظہار کرتا ہے جبکہ یہاں درندہ صفت سوچ اور نگاہوں سے بچنے کےلیے باپ، بھائی یا شوہر کے سہارے اور تحفظ کی ضرورت رہتی ہے ورنہ تنہا عورت کو اپنی عزت و آبرو کا دفاع کرنے میں کافی مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔

مبینہ کا شوہر تو جاہل تھا مگر مجھے یہاں 45 سالہ سائرہ یاد آگئی جس کا شوہر خاصا پڑھا لکھا اور پنج وقتہ نمازی بھی ہے لیکن سائرہ نانی دادی بننے کے باوجود اُس کے کوڑے سے مار کھاتی ہے۔ میکے جانے کا کبھی نہیں سوچا کیونکہ اس کی نظر میں باپ اور بھائیوں کی خاندان میں ناک کٹ جاتی اور بھابھیوں کے رحم و کرم پر رہنے سے بہتر تھا کہ کچھ دیر کی جسمانی اور ذہنی اذیت اٹھا لی جائے۔

بیشک مرد کو اللہ نے عورت پر حاکم بنایا ہے، اگر وہ سرکشی کرے تو اس پر وہ ہاتھ اٹھا سکتا ہے، اس کو سیدھا کرنے کےلیے۔ تو جناب یہ ہے وہ جواز جو کچھ مرد عورتوں کے دبانے یا ان پر ہاتھ اٹھانے کےلیے دیتے ہیں۔ آج کے دور میں بھی ہم نے سائرہ جیسی کئی خواتین دیکھی ہوں گی جو اپنے بچوں کی خاطر دکھ جھیلنے پر مجبور ہیں اور جسمانی و ذہنی اذیت برداشت کرتے ہوئے زندگی گزار رہی ہیں، جبکہ مبینہ کی طرح بہت کم عورتیں مرد کی زیادتی کے سامنے بغاوت کا عَلم بلند کرتی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

افسوس کہ حوا کی بیٹی آج کے جدید دور میں بھی مردوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے۔ جسمانی برتری کا استعمال صنف نازک پر آزادانہ کیا جاتا ہے اور اپنی برتری کو درست ثابت کرنے کےلیے قرآن و حدیث کے حوالے دیئے جاتے ہیں، اس پہلو سے قطع نظر کہ ہاتھ اٹھانے کی اجازت کس صورت اور تناظر میں دی گئی۔ اس ضمن میں سورہٴ نساء کی آیت نمبر 34 کا ذکر ضروری ہے جس میں شوہر کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے، مگر اس سے قبل اور بھی احکام بیان کیے گئے ہیں جن پر خاص توجہ نہیں دی جاتی:

(ترجمہ:) ’’مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو نیک عورتیں (شوہروں کی) اطاعت کرنے والی (اور) ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور (نہ سمجھنے کی صورت میں) ان سے اپنا بستر الگ کرلو اور (پھر نہ سمجھنے پر) انہیں مارو پھر اگر وہ تمھاری اطاعت کرلیں تو (اب) ان پر (زیادتی کرنے کا) راستہ تلاش نہ کرو۔ بے شک اللہ بہت بلند، بہت بڑا ہے۔ (سورہٴ نساء، آیت نمبر 34)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ جلد دوم میں بہترین انداز میں کی گئی ہے جبکہ اس آیت کی تفسیر صراط الجنان میں بھی بہت خوبصورتی سے بیان ہوئی ہے۔ مفتی منک جیسے علماء کا بیان اس آیت کو بہت اچھے سے سمجھنے کےلیے کافی ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ مرد، عورت پر برتر درجہ رکھتے ہیں، وہ ان کی مالی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ پھر اس میں صالح بیوی کی صفات بیان کرنے کے بعد نافرمان عورتوں کا ذکر کیا گیا اور ساتھ ہی ان کے سدھارنے کا طریقہ بڑے احسن انداز میں بیان کیا۔ اس طریقے کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا۔

پہلا مرحلہ سمجھانے کا ہے اور علماء کے نزدیک وہ سمجھانا نرمی سے ہے نہ کہ تذلیل کرنے کے انداز میں۔ تاہم اگر سمجھانے بجھانے سے باز نہ آئیں تو دوسرے مرحلے میں ان کا بستر اپنے سے علیحدہ کرنے کا تذکرہ ہے۔ یہاں بھی علماء نے صرف بستر علیحدہ کرنے کی اجازت دی ہے نہ کہ مکان، جس سے عورت کو رنج زیادہ ہوگا اور فساد بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے۔ ان دو شریفانہ انداز کی سزا و تنبیہ سے بھی بیوی متاثر نہ ہو، تو پھر تیسرے مرحلے میں مارنے کی اجازت ہے۔ البتہ علماء کہ نزدیک مارنے کی اجازت معمولی مار ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کومطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔ جسم کے نازک اعضاء کو نقصان نہ ہو۔ ابتدائی دو سزاؤں کی انبیاء اور صلحاء سے بھی اجازت منقول ہے اور اس پر عمل بھی ثابت ہے مگر تیسری سزا (یعنی مارنے کی اجازت) انتہائی مجبوری کے عالم میں، ایک خاص انداز میں تجویز کی گئی ہے۔

اس کے ساتھ حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے، ’’اچھے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے۔‘‘ چنانچہ انبیاء علیہم السلام سے کہیں ایسا عمل منقول نہیں۔ پھر آخر حصے میں آیت کے فرمایا گیا کہ اگر نافرمان بیوی اطاعت گزار ہوجائے تو اس کی معذرت قبول کرلو۔ اس کے بعد اس کو تنگ نہ کرو۔

حضورﷺ کی حیات مبارکہ میں ایسا کوئی واقعہ ثابت نہیں ہوا جس میں آپﷺ نے کسی پر ہاتھ اٹھایا ہو۔ نیز حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’سرکار دوعالمﷺ نے کبھی کسی عورت کو نہ مارا نہ کسی خادم یا اور کسی کو، مگر یہ کہ آپﷺ اللہ کے راستے میں جہاد کررہے ہوں۔‘‘

ایک روایت میں ہے کہ جب ایک عورت نے نبی کریمﷺ سے اپنے شوہر کی پٹائی کی شکایت کی توآپﷺ نے شوہر سے فرمایا: تم میں سے ایک شخص بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے اور پھر اس سے بغل گیر ہوتا ہے اور شرم بھی نہیں آتی۔

آج بھی خواتین اس طرح کے ظلم و زیادتی کا شکار ہیں، کبھی مار پیٹ تو کبھی سرعام تذلیل؛ اور غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد تنہائی میں معافی تلافی۔

حضورﷺ نے عورتوں کے حقوق کے معاملے میں خدا سے ڈرنے کا حکم فرمایا۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’عورتوں کے سلسلے میں خدا سے ڈرو اس لیے کہ تم نے انہیں اللہ کے امان کے ذریعے حاصل کیا۔‘‘ (مسلم، کتاب الحجہ النبیﷺ)

مختصر یہ کہ اللہ تعالی نے شوہر کو بیوی سے بڑا رتبہ عطا فرمایا جس کے پیچھے حکمت موجود ہے کہ قدرتی اعتبار سے مرد، عورت سے زیادہ طاقتور ہے مگر رتبہ دیا گیا تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا بھی کہا۔ بے شک قرآن و حدیث میں شوہر کے بیوی پر بہت حقوق ہیں اور نافرمان بیوی کےلیے وعیدیں بھی ہیں۔ چنانچہ مسلمان عورت کو زیادتی پر صبر و برداشت کرنے پر فرعون کی بیوی حضرت آسیہ بی بی جیسے اجر و ثواب کی خوشخبری دی گئی۔ مگر تاریخ اسلام کو دیکھیں تو انبیاء و صحابہ کرامؓ اور اولیاء اللہ کی حیات سے ہمیں معمولی باتوں پر سزائیں نظر نہیں آتیں، کہیں مارپیٹ ثابت نہیں ہوتی۔ ان کی زندگیوں سے تحمل و برداشت کا درس ملتا ہے۔

الغرض سورہٴ نساء کی آیت نمبر 34 سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو معمولی بات پر صنفِ نازک کو مشقِ ستم بنا کر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افسوس ہمارے ہاں جاہلوں اور پڑھے لکھے جاہلوں میں رائج ہے کہ چہرے یا بدن پر مارتے ہیں، مکوں گھونسوں اور لاتوں سے پیٹتے ہیں، ڈنڈا یا جو کچھ ہاتھ میں آئے اس سے مارتے اور لہولہان کر دیتے ہیں۔ یہ سب علماء کے نزدیک نہ صرف حرام و ناجائز بلکہ کبیرہ گناہ ہے اور پر لے درجے کی جہالت۔ اللہ ایسی جسمانی طاقت کا مظاہرہ کرنے والوں کو ہدایت دیں، آمین۔

گھریلو تشدد کے واقعا ت کا ذکر امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک سے متعلق کریں تو وہاں پر 85 فیصد عورتیں اور 15 فیصد مرد گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ذکر وطن عزیز کا کریں تو پاکستان میں قائم عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی 2017 کی سالانہ رپوٹ میں گھریلو تشدد سے منسلک کیس اور واقعات کی فہرست تفصیل سے بیان کی ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

قتل: 1266
مارپیٹ: 694
متفرق کیسز: 533+

کل تعداد: 2493+

ان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل، خود کشی، سوارا، جنسی ہراسانی، اجتماعی زیادتی، عصمت دری، اغواء اور جل کر ہلاک ہونے والے دیگر کیسز کا مجموعی ریکارڈ شامل کیا جائے تو یہ تعداد 4146 ہے۔

پاکستان کی مجلس قانون ساز نے عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف قانون سازی تو بہت کی مگر ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب گھریلو تشدد کے واقعات میں کوئی خاص کمی نہ ہوئی۔ اخباری خبروں کے مطابق، 2018 کے دوران عورتوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ اگر صوبہ سندھ کی مثال لی جائے تو سندھ محکمہ برائے بہبود خواتین کے مطابق جولائی 2017 سے اپریل 2018 تک صوبہ بھر میں غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد کے 1643 کیس رجسٹر ہوئے۔

یہ لمحہٴ فکریہ ہے کہ پاکستان کی مجلس قانون ساز نے عورتوں کے تحفظ کےلیے بل پاس کیے مگر ان قوانین کا اطلاق پورے ملک میں نہیں ہوسکا۔ مجموعی طورپر ان کا نفاذ شہروں تک محدود رہا۔ عورتیں زیادہ تر تھانہ اور کچہری میں کیس کی پیروی کےلیے نہیں جاتیں جس کی ایک وجہ ہمارے معاشرے کا دباؤ اور دوسری وجہ سست اور بوسیدہ عدالتی نظام ہے۔

عورتوں کے ساتھ زیادتی قانونی اور اخلاقی لحاظ سے جائز نہیں۔ جہاں تک تعلق دین اسلام کا ہے، تو اس نے تمام ادیان سے بڑھ کر عورت کو مقام دیا۔ افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ دین اسلام کو اپنے مفاد کےلیے غلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ایسی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہے جن میں مرد کی حاکمیت اور برتری کا ذکر کیا گیا ہو۔ پھر ایسا طبقہ ان کا حوالہ دے کر اپنی بدخلقی اور زیادتی کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک گھریلو تشدد سے متعلق قوانین کا اطلاق سختی سے نہیں کیا جائے گا، صورت حال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوپائے گی۔ اس ضمن میں علمائے دین کو بھی ایسے مظالم کے خلاف اسلام کا مؤقف واضح کرنے میں اور عوام کی آگاہی کےلیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post صنفِ نازک پر جسمانی تشدد، کیا اسلام یہ تعلیم دیتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2V1DcRV
via IFTTT