Subscribe Us

header ads

سوشل میڈیا کی زندگی

صبح سویرے آنکھ کھولی، شاندار دھوپ کا منظر۔ ارے بھائی موبائل نکالیے اور ایک خوبصورت تصویر بنا کر واٹس ایپ، انسٹا، اسنیپ پر ’’صبح بخیر‘‘ کے عنوان کے ساتھ چسپاں کردیجیے۔

چلیے ناشتہ تیار ہے… ارے صبر تو کیجیے، ایک اسنیپ لینے دیجیے۔ گھر والے بھی پریشان کہ یہ اسنیپ شاید کسی حکیم کا تجویز کردہ نسخہ ہے جو نہار منہ لینا ضروری ہے۔ خیر ناشتے سے اٹھے اور جامعہ کی جانب روانہ ہوئے۔ دوران سفر ایک خوبصورت گانا لگائیے، پھر موبائل نکال کر چند سیکنڈ کی ویڈیو بنالیجیے۔ اس کے بعد اسے اسٹیٹس پر لگا کر لکھ دیجیے ’’ٹوورڈز یونی!‘‘

اور ہاں! اگر بارش ہورہی ہو تو یہ منظر بالکل ہی بدل جاتا ہے۔ گانا لگا ہوتا ہے ’’بارش کا ہے موسم‘‘ اور ساتھ لکھا جاتا ہے ’’سرد موسم۔‘‘ ٹھنڈی ہوا ہو، ہلکی دھوپ اور بادلوں کی گھن گرج۔ یار کیا موسم ہے! موبائل نکالیے، عکس لیجیے اور مارک زکربرگ یعنی ’’فیس بک اسٹیٹس‘‘ ایون تھامس یعنی اسنیپ اسٹیٹس اور کیون کی تخلیق کردہ انسٹا پر لگا دیجیے اور ساتھ لکھ دیجیے ’’فطرت کی خوبصورتی!‘‘

کیا کہا! بے چین ہو؟ اسٹیٹس لگاؤ ’’سیڈ لائف۔‘‘ یار تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے۔ پریشانی کس بات کی؟ ابھی موبائل نکالیے اور اسٹیٹس داغ دیجیے ’’تھکاوٹ بھرا دن۔‘‘ خوش ہوں، بہت زیادہ خوشی کی وجہ کیا ہے؟ ایک دوست نے تحفہ بھیجا ہے، بہت پسند آیا۔ اس نے مجھے یاد رکھا، بہت بڑی بات ہے۔ اک مفت مشورہ دوں جس سے آپ کی خوشی دو بالا ہوجائے اور آپ کا دوست بھی خوش ہوجائے؛ اور ساتھ وہ لوگ بھی آپ سے متاثر ہوں گے جو آپ کے اسٹیٹس کو روزانہ کی بنیاد پر اگنور کرتے ہیں۔ کیوں نہیں؟ ضرور مستفید فرمائیے اپنے اس مشورے سے۔ اپنا تحفہ اور اسمارٹ فون نکالیے، اب ایک ہاتھ سے تحفہ کھولیے اور دوسرے ہاتھ سے چند سیکنڈ کی ویڈیو بنا کر داغ دیجیے انکل مارک، اور چچا ایون کے چاہنے والوں پر اور بس پھر رد عمل دیکھیے۔ اور ہاں! ساتھ لکھ دیجیے ’’تھینکس فار دا گفٹ دوست، لو یو، تو جان ہے اپنا!‘‘

ارے بھائی آج سالگرہ ہے میری، لوگ نیک تمنائیں بھیج رہے ہیں… تو آپ بھی ان کو خوش کیجیے! مگر کیسے؟

جو دوست آپ کے لیے نیک تمنائیں بھیج رہے ہیں، ان کے اسکرین شاٹس لے کر اپنے اسٹیٹس پر لگا دیجیے۔

*******

یہ ہماری آج کل کی زندگی ہے جبکہ زندگی کی حقیت، مزاج حسرت، سچی محبت، اور تڑپ مرچکی ہے۔ بخدا اظہار غم کی جگہ بھی اب اسٹیٹس ہے اور اظہار خوشی کی جگہ بھی اسٹیٹس، جھوٹی تعریفوں کی جگہ بھی اسٹیٹس اور سچے جذبات کی بھی۔ روحانیت اور دین کی جگہ بھی اسٹیٹس، بچوں سے محبت بھی اسٹیٹس؛ اور بڑوں سے پیار کی جگہ بھی اسٹیٹس۔ اپنے والد سے شاید زندگی میں اچھے طریقے سے بات بھی نہ کی ہو مگر اسٹیٹس پر انگریزی میں محبت اور الفت کے ایسے تعویذ لکھتے ہیں کہ دیکھنے میں ان کےلیے ان سے زیادہ عزیز کوئی نہ ہو۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ اس اسٹیٹس کو ہم تو پڑھنے کی سکت رکھتے ہیں مگر ان کے والد نہیں۔ جھوٹے جذبات کو سچا ثابت کرنے کےلیے الفاظ کی ایسی پائل پہنائیں گے کہ بس پڑھنے والا دنگ رہ جائے۔

ہم تقریباً اپنی نصف سے بھی زیادہ زندگی موبائل پر صرف کررہے۔ روایتی گپ شپ، طنز و مزاح، بچوں سے کھیل کھود، بڑوں سے سنجیدہ گفتگو، دانشورانہ سوچ، یہ سب کچھ تقریباً ہماری زندگی سے ختم ہو چکا ہے۔ ذرا یاد کیجیے اور محسوس کیجیے ایک وہ وقت کہ جب گھر کے سارے افراد ایک ہی چھت تلے محو گفتگو ہوتے تھے۔ خوبصورت گفتگو سے چھوٹوں کو گرویدہ بناتے جس سے ان کے اخلاق اور زندگی پر بڑا گہرا اثر پڑتا۔ بزرگ اپنے قصے کہانیاں سناتے، اپنی زندگی کے تجربات سے نئے گُر سکھاتے تھے؛ دین و دنیا کی بنیادی تعلیم گھر کی دہلیز پر ہی میسر ہوتی تھی۔ اور دوسری طرف آج کی زندگی ’’میں اور میرا موبائل‘‘ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

والد بچوں کو سب کچھ میسر تو کررہا ہے مگر مسکراہٹ بھری دو منٹ کی میٹھی گفتگو کےلیے وقت نہیں دے پارہا۔ کیونکہ جذبات اور احساسات شیئر کرنے کےلیے اب اسمارٹ فونز جو آچکے ہیں۔ بچے جب اسی ماحول میں پرورش پاتے ہیں تو یقیناً وہ ان تمام عادات اس کے ساتھ ہی سفر کریں گے۔ کل کو جب وہ بڑے ہوں گے اور والدین بوڑھے ہوں گے تو ان کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ بچے والدین کو سب کچھ میسر کریں گے مگر شاید دو منٹ کی گفتگو کےلیے وقت ان کے پاس بھی نہیں ہوگا، جس کی تڑپ والدین محسوس کریں گے لیکن وقت گزر چکا ہوگا… اور آج کل ایسے مسائل معاشرے میں جنم لے چکے ہیں، کیونکہ سوشل لائف میں سوشل میڈیائی پرورش پاکر یہی تو سیکھ رہے ہیں کہ میں اور میرا موبائل، اور بس!

آج کل ہر دوسرا بندہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ سوشل میڈیائی زندگی میں ہم اتنے کھوچکے ہیں کہ شاید آنے والے وقتوں میں ہم اپنے قریبی رشتوں کو بھی پہچاننے سے قاصر ہوجائیں گے۔

مہمان گھر آئے تو مہمان نوازی خوب کی جاتی ہے مگر سر اٹھا کر ہم بات کرنے بجائے ہم اس روشنی کے دیو میں مگن رہتے ہیں۔ دوستوں کی محفل کو بھی موبائل کی نظر لگ چکی ہے۔ غرض ہم سوشل میڈیا لائف میں مکمل طور پر پھنس چکے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے، ہمیں اس سوشل میڈیا نامی وبا کو محدود کرنا ہوگا اور اسے تعمیری بنانا ہوگا۔ لیکن اگر ہم اسی تواتر کے ساتھ لگے رہے اور بیت الخلا سے لے کر مطعم تک، تمام معمولات زندگی کو اسٹیٹسس کی نذر کرتے رہے تو یقیناً ہمیں عظیم نقصان اٹھانا پڑے گا؛ چاہے وہ دماغی کمزوری کی صورت میں ہو یا پھر ڈپریشن اور ٹینشن کی صورت میں۔ کیونکہ کوئی بھی چیز جب حد سے تجاوز کرے تو وہ انسان کےلیے زہر قاتل بن جاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سوشل میڈیا کی زندگی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2UOcQCG
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments