ملائیشیا کے عظیم رہنما جنہوں نے اپنے ملک کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر ڈالا، ان کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ آج ملائیشیا دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے، اس کے پیچھے مہاتیر محمد کی وہ ذہنی تخلیق ہے، جو ایک انسان اپنے تعصب سے ہٹ کر ٹھنڈے دماغ سے ریاضت کرکے ایک ایسی جامع پالیسی بناتا ہے، جو اپنی قوم کے مزاج کو بدل کر ترقی کی شاہراہ پر لے آئے۔ ملائیشیا کے لوگ جھونپڑیوں میں زندگی گزارتے تھے، لیکن جب ان کو جہاندیدہ شخص ملا جو قوم کی قسمت کا دھارا بدلنے کی صلاحیت رکھتا تھا، تو شہروں میں زندگی کی رونقیں لگ گئیں، بیرونی سرمایہ کار آتے گئے، نئی عمارتیں بنتی گئیں، بیروزگاری کا مسئلہ حل ہوتا گیا، ایکسپورٹس میں خاطرخواہ اضافہ ہوگیا، فی کس آمدنی کئی گنا بڑھ گئی۔ آج ملائیشیا ایک صنعتی ملک شمار ہوتا ہے، جس کی صرف الیکٹرونکس کی ایکسپورٹس 32 ارب ڈالر ہے، جبکہ ہماری کل ایکسپورٹس 24 ارب ڈالر کے آس پاس ہے، جو کافی کم ہے۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان باتوں کا ذکر کیا جن کی وجہ سے ان کا ملک آج صنعتی ترقی اور مضبوط معیشت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد سے پوچھا گیا کہ 1997 سے 1998 میں جو ایشیائی ممالک میں معاشی بحران آیا تھا، اس کو ملائیشیا نے کیسے حل کیا؟ ڈاکٹر مہاتیر نے اس کا بڑا معقول جواب دیا کہ ہم اس وقت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض لیتے تھے، تو آئی ایم ایف والے ہم سے شرائط منواتے تھے کہ کرنسی کی قدر کو کم کرو، تمہاری ایکسپورٹس بڑھیں گی، زرمبادلہ ملے گا۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہمارا دیا گیا قرضہ واپس ہوسکے۔ اسٹرکچرل اصلاحات کے نام پر ملک کو مزید غریب کیا جاتا، کرنسی مافیا کو آگے لایا جاتا۔ وہ لوگ مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت بڑھا دیتے، اور ہم بیٹھے بٹھائے غریب ہوجاتے۔ اس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ کرنسی کی قدر کے ریٹ کو فکس کردیا۔ جو 3.8 رنگٹ کا ایک ڈالر بنتا ہے۔ یہ ہے ایک وژن رکھنے والے آدمی کی دیرپا حل تلاش کرنے کی صلاحیت۔
مہاتیر محمد صاحب انتہائی دھیمے انداز میں بات کرتے ہیں، اس کے پیچھے ریاضت ہوتی ہے، چیزوں کو پرکھنے کی صلاحیت، اس پہ غور کرنے کی توفیق۔ جو لوگ پریس کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بلند آواز سے چیخنے چلانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ریاضت کیش نہیں ہوتے۔ غورو فکر کرنے والا آدمی ہمیشہ دھیما لہجہ رکھتا ہے۔
وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر کا قرض لینے کی پوری تیاری کرلی ہے، تبدیلی کا جنازہ تیار ہورہا ہے۔ آپ کے پاس اگر وژن ہوتا تو بغیر سوچے سمجھے کرنسی کی قدر کم نہ کرتے۔ ہر ملک میں معاشی مسائل ہوتے ہیں لیکن جب اس کو روایتی طریقوں سے حل کیا جاتا ہے تو حالات مزید گمبھیر ہوتے ہیں۔ کرنسی کی مسلسل بے قدری قومی ذلت ہے۔ ملک پر بغیر قرض لیے قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ مڈل کلاس طبقے کے پاس بچت نہیں ہورہی، اوپر سے قرض میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ مسائل کو روایتی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرض لیں، کرنسی کی قدر گھٹائیں، سرمایہ کار آئیں، اپکسپورٹس بڑھیں۔ لیکن اس ساری پلاننگ کا ستیاناس ہوجاتا ہے جب آپ عالمی سودی بینکاری کے ساہوکاروں کے کہنے پر کرنسی کی قدر کو کم کردیتے ہو۔ قوم نے آپ کو چیخیں نکلوانے کے لیے ووٹ نہیں دیے، پہلے ہی لٹے پٹے عوام کو سبزباغ بہت دکھائے جاچکے ہیں۔ ہر آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیا، لیکن پائپ کے اس سوراخ کو بند نہیں کیا جو باربار لیک ہوتا ہے۔ ایک بار آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
پورا مالیاتی نظام غلط سمت میں جارہا ہے، پہلے بھی آئی ایم ایف والوں سے قرضے لیے گئے، لیکن معاشی حالات بہتر نہیں ہوسکے۔
باربار کے قرضوں اور مالیاتی نظام کی خرابی کی وجہ سے یہ حالت ہو گئی ہے، لوگوں کی قوت خرید انتہائی کم ہوچکی ہے۔ مہنگائی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکلنا شروع ہوگئی ہیں۔ اگر اس کو کنٹرول نہ کیا گیا تو لوگوں میں مایوسی بڑھے گی۔ ابھی حکومت کے پاس مہلت موجود ہے، اگر درست اقدام نہ ہوئے تو لوگوں کا حکومت پر اعتماد کم ہوجائے گا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان اناج کی پیداوار میں دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے، لیکن قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے آدھی آبادی بمشکل کھانے کی ضروریات پوری کرپاتی ہے۔ آمدنی کا بڑا حصہ خوراک خریدنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں بھی مزدور آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے، بمشکل 30 ہزار کما پاتا ہے، جس سے گھر کا بجٹ بھی نہیں چل سکتا۔ ترقی یافتہ ملک میں بھی مزدور آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے، لیکن 800 یورو سے 1000 یورو تک کما لیتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ وہاں کرنسی کی قدر کو فکس رکھا جاتا ہے۔ اگر اس طرح ہمارے ملک کی کرنسی بے قدر ہوتی رہی، مہنگائی بڑھتی رہی تو وافر اناج اور وسائل کے باوجود عوام مزید غریب ہوں گے۔
باربار قرضوں کی شرائط پوری کرنے کی وجہ سے روپے کی قدر میں خاصی کمی ہوچکی ہے۔ جب تک کرنسی کی قدر کو فکس نہیں کیا جائے گا، معیشت ڈولتی رہے گی۔ چاہے بارشوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوجائے یا پھر سیالکوٹ، وزیرآباد، گوجرانوالا، فیصل آباد جیسے صنعتی شہروں میں بجلی گیس کی ہمہ وقت فراہمی سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوجائے، تب بھی اگر کرنسی کی قدر کو کنٹرول نہ کیا گیا، تو ہم مزید غریب تو ہوسکتے ہیں لیکن آگے نہیں بڑھ سکتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post ڈاکٹر مہاتیر محمد سے سیکھئے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YxpHLW
via IFTTT
0 Comments