Subscribe Us

header ads

تین بسیں، تین کہانیاں

آئیے! آج آپ کو کچھ راویوں کے توسط سے ایک کہانی سناتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں لوگ اب کہانیاں سننے کے بجائے، مداریوں کے تماشے دیکھنے میں زیادہ شغف رکھتے ہیں۔ مگر چونکہ ہمارا شمار بھی اسی مخلوق میں ہوتا ہے جسے ’’لوگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں معلوم ہے کہ کچھ عرصے سے تماشوں کی رنگینی ماند پڑگئی ہے اور مداریوں کے چلبلے پن میں بھی یوں لگتا ہے جیسے دم نہیں رہا۔ اس لیے ’’افتخار عارف‘‘ کے’’ بارہویں کھلاڑی‘‘ کی طرح سوچا کہ موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تاریخ میں اپنا شمار بھی قصہ گو اور کہانی نویس کے طور پر کروالیا جائے۔ کہانی میں اگر کہیں آپ کو حقیقت کا گمان ہو تو کہنے والے کی ناتجربہ کاری سمجھیں اور اسے بالکل سنجیدہ نہ لیں۔

کہانی کا عنوان ماضی کے مقبول کہانی سلسلے سے متاثر ہو کر رکھا گیا ہے، جو کچھ یوں ہے ’’تین بسیں تین کہانیاں‘‘۔ عنوان اگر آپ کو پسند نہ آئے تو آپ اسے اپنی مرضی کے عنوان سے بدل سکتے ہیں۔ جیسے تین واقعات، تین کہانیاں۔ ہاں اگر عنوان مقرر کرتے ہوئے تین کے ہندسے سے آپ کو کسی قسم کی الرجی ہو یا آپ کے ماضی کی خوشگوار یادیں اس سے وابستہ نہ ہوں تو کہانی نویس کی طرف سے آپ کو کھلی چھوٹ ہے کہ آپ اس سے جان چھڑوالیں ۔ ویسے بھی کہانی بیان کرنے والے کی وضاحت کے مطابق کہانی کا اس کے عنوان سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ کہانی کا ہر واقعہ ایک الگ عنوان رکھتا ہے۔ البتہ پوری کہانی میں راویوں کی طرف سے کی گئی ایک اپیل مشترک ہے کہ ’’برائے مہربانی! بس ہوسٹس کی عزت کریں اور خود کو سمیٹ کر بیٹھیں تاکہ انہیں گزرنے میں آسانی ہو‘‘۔

تو آئیے کہانی کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں:

کہانی کا آغاز ایک بس سے ہوتا ہے۔ اس بس میں ہوسٹس مسافروں کو پانی پلانے کے لیے پلاسٹک بیگ سے گلاس نکالنے میں مصروف تھی۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے تاثرات تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی نگاہیں اس راستے کی طرف اٹھتیں جو مسافروں کے درمیان سے گزرتا تھا۔ وہ بار بار اس راستے کو دیکھتی اور اس کے چہرے پر چھائی پریشانی کے تاثرات میں بیزاری اور کوفت بھی شامل ہوجاتی۔

ہوسٹس کی مجبوری یہ تھی کہ اسے اس مختصر سی گزرگاہ سے، جس کی چوڑائی دو فٹ سے بھی کچھ کم ہی تھی، کم ازکم پانچ سے چھ مرتبہ گزرنا تھا۔ جبکہ یہ مختصر چوڑائی والا راستہ، سیٹوں سے باہر کی طرف لٹکتے ہوئے مسافروں کے جسموں کی وجہ سے اور بھی تنگ ہو رہا تھا۔ ایک مسافر تھوڑا زیادہ فربہ تھا۔ اس کا بایاں شانہ سیٹ سے باہر نکلا ہوا تھا اور اس کے بازو کا گھیرا اتنا بڑا تھا کہ گزرنے کے لیے راستہ ہی نہیں بچتا تھا۔

آگے راوی نے کچھ بیان کرنے کے بجائے فقط یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ باقی پڑھنے والے خود سمجھدار ہیں۔ سمجھ لیں کہ اس بس کی ہوسٹس نے اپنی ڈیوٹی کتنی ’’انجوائے‘‘ کی ہوگی اور اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو تجربے کے طور پر کبھی اس بس ہوسٹس کی جگہ ڈیوٹی دے کر دیکھ لیں۔ امید ہے افاقہ ہوگا۔

دوسری کہانی کچھ طویل ہے اور راوی اس کی ابتدا کچھ یوں کرتا ہے کہ مسافر بس میں سوار ہوچکے ہیں اور اب اس بات کے منتظر ہیں کہ بس اپنی منزل کی طرف روانہ ہو، تاکہ وہ بھی سفر کی اس کوفت سے چھٹکارا حاصل کریں جو عموماً کسی بھی سفر کے آغاز سے ہی مسافروں کی طبیعت پر غالب آجاتی ہے اور اس وقت تک ان کی جان نہیں چھوڑتی جب تک وہ باقاعدہ اپنی منزل کی جانب سفر کا آغاز نہ کرلیں۔ مگر بس ہے کہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ پہلے کچھ منٹ تو مسافروں نے برداشت کیا۔ لیکن پھر دھیرے دھیرے ان کی برداشت جواب دینے لگی۔

ایک مسافر نے بس کی روانگی میں تاخیر پر ڈرائیور سے استفسار کیا، مگر اسے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر آواز بلند کی۔ اس بار اس کی آوازوں میں کچھ دوسرے مسافروں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ ڈرائیور نے مسافروں کو تسلی دینے کی کوشش کی لیکن بات نہیں بن سکی۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو مسافروں نے قدرے بلند آوازوں سے بولنا شروع کردیا۔ اور ان کی بلند ہوتی آوازیں شور میں بدلنے لگیں، کیونکہ بس ڈرائیور ان کو مطمئن نہیں کر پارہا تھا۔ تنگ آ کر ایک مسافر اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا تاکہ انتظامیہ سے دریافت کرسکے کہ بس کی روانگی میں بلاجواز تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟ لیکن اس کے بس سے اترنے کی نوبت نہیں آئی۔ انتظامیہ کا نمائندہ بس میں داخل ہوا اور اس نے مسافروں سے بس کی روانگی میں تاخیر پر معذرت کی اور بتایا کہ تاخیر کی وجہ دراصل بس کے ساتھ جانے والی ہوسٹس کی طبیعت کی خرابی ہے۔ اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی وضاحت کی کہ کچھ ہی دیر میں ایک دوسری ہوسٹس آرہی ہے جو بس کے ساتھ جائے گی۔

اس کی وضاحت نے مسافروں کے غصے کا رخ ہوسٹس کی جانب کردیا۔ کچھ مسافروں نے صرف بڑبڑانے پر اکتفا کیا، جبکہ کچھ مسافروں کی رگ شرارت پھڑکی اور انہوں نے دبی دبی ہنسی کے ساتھ ہوسٹس پر تبصرے کرنے شروع کردیے۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ہوسٹس بیمار تھی اور ان مسافروں سے کبھی نہیں ملی تھی مگر پھر بھی اس کی ذات کچھ ناپسندیدہ تبصروں کی زد میں تھی۔

وہ مسافر، جو انتظامیہ سے استفسار کے لیے اپنی نشست چھوڑ چکا تھا، اس نے ایک ہی سانس میں انتظامیہ کی معذرت کو ٹرانسپورٹرز کی کرپشن اور بے ایمانی پر پردہ ڈالنے کا بہانہ قرار دے دیا۔ اس سے پہلے کہ معاملہ زیادہ خراب ہوتا، متبادل ہوسٹس بس میں داخل ہوئی اور ڈرائیور نے مزید کسی تلخی سے بچنے کے لیے فوراً بس چلا دی۔ کچھ مسافر ابھی بھی بڑبڑا رہے تھے، ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ ان میں سے کسی نے ہوسٹس پر پھبتی کسی، ساتھ والے ہنسنے لگے۔ ہوسٹس نے ان کو نظر انداز کردیا اور ان کی ہنسی اور ٹھٹھے کا کوئی جواب نہیں دیا۔ نظرانداز کیے جانے والوں نے دوبارہ شرارت کی۔ اس مرتبہ ہوسٹس پر جوفقرہ کسا گیا وہ بدتمیزی کی حدود میں آتا تھا۔ اب کی بار، ہوسٹس نے فقرہ کسنے والے کو تیز نگاہوں سے گھورا۔ اس کے گھورنے میں شدید ناگواری نمایاں تھی۔ لیکن کسی کو اس کی ناگواری کی پرواہ ہی کب تھی۔

کچھ مسافر موبائل پر مصروف تھے، کچھ نے کانوں پر ہیڈ فون لگائے ہوئے تھے اور ان کی سماعت اردگرد پیدا ہونے والی آوازیں سننے سے قاصر تھی۔ خواتین مسافروں کی ساری توجہ اپنے بچوں کی شرارتوں کو کنٹرول کرنے میں تھی۔ ہوسٹس کی خاموشی کو اس کی مجبوری سمجھتے ہوئے، پھر کسی نے ہوسٹس پر کمنٹ کیا۔ اس مرتبہ تبصروں کا نشانہ ہوسٹس کا سراپا تھا۔ توہین کا احساس اتنا شدید تھا کہ بہت ضبط کے باوجود بھی ہوسٹس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہمیشہ کی طرح یہاں پہنچ کر راویوں کی یادداشت جواب دے گئی اور بہت کوشش کے باوجود بھی انہیں مزید کچھ یاد نہیں آسکا۔

تیسری بس کی کہانی بیان کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ چونکہ دوسری بس کی کہانی کے اختتام پر کہانی نویس کے بار بار ٹوکنے پر راویوں کی سانسیں پھولنا شروع ہوگئیں۔ اور کہانی کہنے والے پر یہ جاں گسل انکشاف ہوا کہ راویوں کی سانس پھولنے کی وجہ یہ نہیں کہ انہیں کچھ یاد نہیں آرہا بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق بھی اس مخلوق سے ہے، جس کا ذکر کہانی کی تمہید میں آیا ہے اور جسے ’’لوگ‘‘ کہتے ہیں۔

کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ لوگوں کی طرح راویوں کی دلچسپی جو پہلے ہی کہانی میں نہ ہونے کے برابر ہے، نت نئے تماشوں کی بدولت بالکل ختم ہوتی جارہی ہے۔ اس نئی افتاد کے باوجود کہانی نویس نے اپنا حوصلہ مجتمع کیا، راویوں کی توجہ مسئلے کی سنگینی کی طرف دلائی اور جیسے تیسے ابھی تیسری کہانی کی طرف بڑھنا شروع کیا ہی تھا کہ قصے میں ایک عینی شاہد نے چھلانگ لگائی اور ایک واقعے کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ جس میں مبینہ طور پر ایک شخص جو خود کو ایف آئی اے کا افسر بتاتا ہے، بس ہوسٹس کو برا بھلا کہہ رہا ہے اور دھمکیاں دے رہا ہے، جبکہ بس ہوسٹس رو رہی ہے۔ کہانی نویس کو لگتا ہے کہ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اب اسے کہانی ختم کردینی چاہیے، کیونکہ وہ جو کہنا چاہتا تھا وہ سب اس ویڈیو میں موجود ہے۔

چونکہ کہانی نویس خود بھی لوگوں میں شامل ہے اور جانتا ہے کہ لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے، اس لیے وہ اپنے پڑھنے والوں کو پچھلے برس ہونے والا واقعہ یاد دلانا چاہتا ہے جس میں ایک بس ہوسٹس کو شادی سے انکار پر قتل کردیا گیا تھا۔ قاتل کا کیا بنا؟ کسی کو کچھ معلوم ہو تو ضرور بیان کرے، کیونکہ کہانی نویس کی طرح اس کے راوی بھی قاتل کے انجام سے بے خبر ہیں۔

کہانی کے اختتام پر قصہ گو امیر شہر کے آگے فریاد کناں ہے کہ حضور!ظل الٰہی! آپ کے بھاگ لگے رہیں اور آپ کے اقبال کا سورج سدا نصف النہار پہ چمکتا رہے۔ آپ کے آگے دست بستہ عرض ہے کہ اور کچھ نہیں تو سیٹوں کے درمیان، بس ہوسٹس کے گزرنے کے لیے جو راستہ ہے اس کی چوڑائی ہی تین فٹ کروادیں۔ عین نوازش ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post تین بسیں، تین کہانیاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2vlLeK2
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments