Subscribe Us

header ads

نرسنگ کا شعبہ، عزت اور احترام کی علامت  

پچھلے برس 12مئی کو جب پوری دنیا میں نرسوں کا عالمی دن منایا جارہا تھا، اس کے ٹھیک 20 روز بعد یکم جون 2018ء کو غزہ کی پٹی پر احتجاج کے دوران اسرائیلی فورسز کی بارودی گولی ایک فلسطینی نرس کی زندگی نگل گئی اور وہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئی۔ اس کا نام رزان اشرف النجار تھا۔

دل کش مسکراہٹ والی، سانولی رنگت، سَر پر اسکارف اوڑھے اور آنکھوں میں آزادی کا خواب سجائے 21 سالہ وہ نرس بلاخوف و خطر اپنے زخمی ہم وطنوں کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف تھی۔

اس کا سنِ پیدائش 1997 تھا۔ طبی تعلیم جامعہ ازہر قاہرہ سے حاصل کی۔ 2016ء میں گھر کی معاشی صورت حال کو کم زور ہوتا دیکھ کر فلسطین آگئی۔ وہاں حالات بہت زیادہ خراب ہوچکے تھے۔ اس نے درد سے کراہتے، زخموں سے چور ہم وطنوں کی تکلیف کم کرنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ یہ کام بلا معاوضہ اور صلے و ستائش کی تمنا کے بغیر کرنے لگی۔ سوشل میڈیا پر اس کی چند ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ کہہ رہی ہے کہ ’’عورت کو اپنا آپ منوانا پڑتا ہے، اسے مانا نہیں جاتا، اب وقت آگیا ہے کہ معاشرہ ہمارے کام کی وجہ سے عورت کو ماننے پر مجبور ہوگا۔‘‘ اس نے ایک جگہ کہا ’’میں یہ کام کسی ایوارڈ یا صلے کی تمنا کیے بغیر اپنے ملک کی محبت اور انسانیت کے لیے کررہی ہوں۔ لوگ میرے والد سے پوچھتے ہیں کہ انہیں میرے کام پر فخر ہے۔ میں بھی اس شعبے سے مطمئن ہوں۔‘‘

رزان ایک بیٹی کی ماں بھی تھی۔ ظالم، درندہ صفت اسرائیلیوں کے تپتی دوپہروں میں نہتے اور اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکلنے والے فلسطینیوں پر بارود برسانے اور عمر و صنف کی تفریق کے بغیر ان پر وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑنے کے سے زخمی اور لہولہان ہوجانے والوں کی مرہم پٹی کرنے والی اس ماں کی ممتا کتنی ہی بار اپنی ننھی پری کو گود میں بھر لینے کو بے تاب ہو جاتی ہو گی۔ اس کا کرب ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے کہ چاہنے کے باوجود وہ اپنے فرض اور ذمہ داری سے غافل نہ ہوئی۔ کبھی وہ چاہتی ہو گی کہ اُڑ کر گھر پہنچ جائے اور اپنی گڑیا کو اپنے ساتھ لپٹا لے۔ اس سے باتیں کرے اور اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلائے، مگر اس نے اپنے فلسطینی ہم وطنوں کی خدمت اور دیکھ بھال کی جو ذمہ داری اٹھا رکھی تھی، وہ اسے ایسا کرنے سے باز رکھتے ہوں گے۔ اس کا نام اور اس کا کام انسانیت اور نرسنگ کے شعبے سے وابستہ عورتوں کے لیے روشن مثال ہے۔

رزان کی خون آلود جیکٹ دنیا کو جھنجھوڑ رہی ہے کہ آخر کب تک مظلوم فلسطینیوں کا خون یونہی بہتا رہے گا؟ آخر ہمیں آزادی کب ملے گی؟ آخر کب تک غزہ کے باسی دیواروں کی اوٹ میں منہ چھپاکر آہیں، سسکیاں بھرتے رہیں گے؟ عالمی ضمیر کب جاگے گا؟

دنیا اگلے ماہ پھر نرسز کا عالمی دن منائے گی۔ دنیا رزان کو اس روز یقینا یاد کرے گی۔ مہذب معاشروں میں نرسنگ کے شعبے کی اہمیت اور نرسوں کو وقار و امتیاز حاصل ہے، اور ان کو حقوق بھی دیے گئے ہیں، مگر بدقسمتی سے ترقی پزیر ملکوں میں جس طرح کسی بھی شعبے میں عورت کا استحصال کیا جاتا ہے اور اسے کئی مسائل کا سامنا ہے، اسی طرح ہمارے ملک میں بھی نرسوں غلط رویے اور نامناسب سلوک کی وجہ سے تکالیف اور مسائل درپیش ہیں۔ پاکستان سمیت بیش تر ترقی پزیر ممالک میں فیمیل نرسوں کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ اسے عام لوگوں کی نظروں میں قابل احترام پیشہ نہیں سمجھا جاتا۔ دکھ اور تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے اپنی خوشی، راحت اور آرام تج کر ہر وقت مستعد، چوکس رہنے والی نرس صرف مرہم پٹی ہی نہیں کرتی بلکہ مریض کا حوصلہ بڑھاتی اور اسے زندگی کی طرف لاتی ہے، اسے صحت یابی کا یقین دلاتی ہے۔ یقیناً نرسیں اس کی تنخواہ پاتی ہیں، لیکن مرہم پٹی اور زخموں کو صاف کرنے کے ساتھ وہ مریض سے جس خلوص اور مہربانی  سے پیش آتی ہے، اس کا کوئی بدلہ دیا جاسکتا ہے؟

نرسوں کی تعریف عالمی ادارے کے تحت یوں کی جاتی ہے کہ یہ بیماروں کی دیکھ بھال کرنے کے علاوہ ایسا ماحول بناتی ہیں جو مریض کی صحت یابی میں معاون ہو، نرسیں بیماری کا پھیلاؤ روکنے اور لوگوں کے بچاؤ کی کوشش کرتی ہیں۔ انسانیت کی خدمت ان کا بنیادی کام ہے اور ان کی خدمات قومیت، رنگ و نسل اور کسی بھی سماجی حیثیت و مرتبے سے بالاتر ہیں۔ ہمیں اس پیشے کی قدر اور اس سے وابستہ خواتین کو عزت اور احترام دینا ہو گا۔

The post نرسنگ کا شعبہ، عزت اور احترام کی علامت   appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2G9QSVL
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments