وادی سوات کو شدت پسندوں اور دہشت گردی سے بہت نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ اب دہشت گردی کی ایک نئی قسم پروان چڑھ رہی ہے، جس میں لوگوں کو مارا تو نہیں جارہا بلکہ مستقبل قریب میں مجموعی طور پر لوگوں کی ہلاکت کےلیے منصوبہ ضرور بنایا جارہا ہے۔ یہ دہشت گردی جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی صورت میں ہے۔
سوات کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے۔ گھنے جنگلات، بلند وبالا پہاڑ، گنگناتے ہوئے دریا اور شور مچاتے آبشار، ہر چیز کو اس خطے میں پرویا گیا ہے۔ یہاں کے حسین و دلفریب نظارے دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کردیتے ہیں۔ تاہم یہ رعنائیاں اور اس خطے کا حسن ماند پڑ رہا ہے۔ جنگلات کی مسلسل اور بے دریغ کٹائی سے نہ صرف سرسبز وادیاں بنجر ہورہی ہیں، آب وہوا متاثر ہورہی ہے، بلکہ عالمی حدت میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ درختوں پر ہونے والی اس ’’دہشت گردی‘‘ سے مستقبل قریب میں پانی کی شدید قلت کا بھی سامنا ہوگا۔
سوات کے بالائی علاقوں میں قیمتی درختوں کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔ یہ جنگلات وادی کالام، اوشو، مٹلتان، گبرال، تحصیل مٹہ اور کبل کے مضافاتی علاقوں میں موجود ہیں۔ ہر سال کروڑوں روپے کی قیمتی لکڑی نہ صرف پورے ملک کو قانونی دائرے میں رہتے ہوئے فراہم کی جاتی ہے، بلکہ اس سے دگنی قیمتی لکڑی کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ ٹمبر مافیا اور محکمہ فاریسٹ کی ملی بھگت سے جنگلات ویران ہورہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں میں صرف وادی کالام میں قیمتی لکڑی ’’دیار‘‘ کے دو سو سے زائد درخت کاٹے گئے ہیں۔ اسی طرح تحصیل مٹہ، جو کہ وزیراعلیٰ محمود خان کا حلقہ ہے، وہاں پر بھی گزشتہ ایک ماہ کے دوران دیار، اچر اور شیشم کے چار سو سے زائد تناور درختوں کو کاٹا جاچکا ہے۔ جس سے نہ صرف جنگلات کا خاتمہ ہورہا ہے بلکہ حکومت کے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کی بھی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔
کالام کے صحافی ایچ ایم کالامی سے اس حوالے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اوشو، مٹلتان اور کالام کے مرکزی جنگلات سے ٹمبر مافیا بڑی آسانی سے درخت کاٹ کر لے جاتے ہیں۔ محکمہ فاریسٹ صرف دعوؤں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، جبکہ عملاً کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جارہے۔ جنگلات کی کٹائی کے خلاف جب یہاں کے صحافی خبریں نشر کرتے ہیں تو انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ محکمہ فاریسٹ کو ٹمبر مافیا کی کارروائیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وہ صرف بیانات تک ہی محدود ہوجاتے ہیں۔
حال ہی میں محکمہ فاریسٹ کے ایک افسر نے بیان جاری کیا تھا کہ محکمہ میں فاریسٹ گارڈز کی کمی کی وجہ سے ٹمبر مافیا کے خلاف بروقت کارروائی نہیں کی جارہی۔ اب اگر بات صرف ٹمبر مافیا تک محدود ہوتی تو کچھ کارروائی کی توقع تھی، لیکن یہاں تو محکمہ فاریسٹ کے افسران کی آشیرباد سے ہی ٹمبر مافیا کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت محکمہ فاریسٹ کو ملنے والے ہزاروں پودوں کو اس لیے ضائع کیا گیا تھا، کیونکہ وہ اُن کو لگانے سے قاصر تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں پودوں کو زمین میں دفن کیا گیا۔ جب علاقہ لالکو میں سڑک پر مرمتی کام چل رہا تھا تو کھدائی کے دوران وہ پودے باہر نکالے گئے۔ اس حوالے سے مذکورہ واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی حضرت علی نے بتایا کہ ہزاروں پودے جو بلین ٹری سونامی کے تحت مہیا کیے گئے تھے، زمین کے اندر دفن تھے اور کھدائی کے دوران باہر نکالے گئے۔ ہم واقعے کی کوریج کےلیے گئے تو ہزاروں کی تعداد میں پودوں کو ضائع کیا جاچکا تھا، سڑک پر بکھرے پودے محکمہ فاریسٹ کی نااہلی اور کام چوری کی روداد بیان کررہے تھے۔
محکمہ فاریسٹ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ شجرکاری مہم صرف فوٹو سیشن تک ہی محدود ہوتی ہے، حکومت سے ملنے والے پودے اکثر اوقات ضائع ہوجاتے ہیں اور کوڑا کرکٹ کی زینت بن جاتے ہیں۔ جتنی بھی شجرکاری ہوتی ہے، زیادہ تر الائچی کے پودے لگائے جاتے ہیں، جس سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی رہتی ہے، کیونکہ الائچی کا پودا پانی کی زیادہ مقدار جذب کرتا ہے۔
گزشتہ سال محکمہ فاریسٹ کے ہی ایک آفسر کی ہدایت پر سوات کی مختلف شاہراہوں کے کناروں پر لگے درختوں کو بلاوجہ کاٹا گیا تھا، جس پر سول سوسائٹی اور صحافیوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ اسی طرح پانچ سال قبل وادی کالام کے ایک نامور پولیس ایس ایچ او کی پولیس وین سے قیمتی لکڑی کے سلیپر برآمد کیے گئے تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جنگلات کی کٹائی کے ذمے دار صرف ٹمبر مافیا ہی نہیں بلکہ محکمہ فاریسٹ اور دیگر اداروں کے سرکردہ افراد بھی اس شامل ہیں۔
درختوں کی افادیت کو سمجھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ جنگلات کی کٹائی کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈالا جائے۔ جو بھی درختوں کو کاٹنے کا مرتکب نکلے، اُسے دہشت گرد قرار دیا جائے اور کڑی سزا دی جائے۔
جنگلات کی کٹائی، شاہراہوں کے کناروں پر نصب درختوں کے خاتمے اور آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے وادی میں پانی کی قلت کے آثار نمودار ہوچکے ہیں۔ پانچ سے دس سال قبل زیر زمین پانی چالیس سے سو فٹ گہرائی میں پایا جاتا تھا۔ اب حال یہ ہے کہ دو سو سے لے کر چار سو فٹ تک زیر زمین کنویں کھودے جارہے ہیں، جس میں بھی پانی کی سطح انتہائی کم ہوتی ہے۔
ماہر ماحولیات خلیل الرحمان کے مطابق اگر جنگلات کی کٹائی کی رفتار اسی طرح جاری رہی تو بہت جلد علاقے میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر مختلف اوقات میں شجرکاری مہم چلائی جاتی ہے، تاہم لگائے جانے والے پودوں کی بہتر دیکھ بھال نہ ہونے سے وہ نشوونما نہیں پاتے اور خراب ہوجاتے ہیں۔ درختوں کی کمی کی وجہ سے علاقے کی آب و ہوا بہت متاثر ہوچکی ہے اور درجہ حرارت مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے۔ وادی سوات سمیت ملک بھر میں 2010 کے سیلاب کی بڑی وجہ بھی درختوں کی کٹائی اور جنگلات کی کمی تھی۔ گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کرنے اور قدرتی آفات سے نبردآزما ہونے کےلیے وقت کا تقاضا ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق گلیشیئرز مسلسل پگھل رہے ہیں اور گلوبل وارمنگ میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے، جس کی بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ فضا کی نچلی تہوں میں موجود گرین ہاؤس گیسوں کے ارتکاز سے بھی زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی حدت کو کنٹرول کرنے کےلیے حکومت کے پاس ایک ماہر ٹیم کا ہونا بہت ضروری ہے، تاکہ بہتر طریقے سے شجرکاری کی جائے۔ اُن پودوں کی بہتر نگہداشت کی جائے اور لوگوں میں درختوں کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی پھیلائی جائے۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کےلیے بہتر ماحول مہیا کیا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post سوات پھر سے ’’دہشت گردی‘‘ کی لپیٹ میں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2MmXqFA
via IFTTT
0 Comments