ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو زیادہ پیسہ کمانے کو برا تصور کرتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پیسہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ ہم زیادہ پیسے کما کر کیا کریں گے، کفن میں جیب نہیں ہوتی، وغیرہ۔ حالانکہ اگر ہم اپنی تاریخ دیکھیں تو معاملات اس کے برعکس ہیں۔
حضرت داودؑ اور حضرت سلیمانؑ جیسے پیغمبر اپنے زمانے کے دولتمند بادشاہ تھے۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جیسے صحابہ اپنے دور کے دولتمند تاجر تھے۔ اور حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام ابوحنیفہؒ جیسی عظیم ہستیاں بھی دولتمند طبقے سے ہی تعلق رکھتی تھیں۔ تو یہ بات واضح ہے کہ دولت میں بذات خود کوئی خرابی نہیں، بلکہ اس کے صحیح یا غلط استعمال میں اصل اچھائی یا برائی پنہاں ہے۔
یہ بلاگ بھی پڑھئے: مالیاتی علم سیکھ کر سرمایہ کاری کیجیے
پیسہ کمانے کی درجہ بندی
آج کا المیہ یہ ہے کہ امیر اور غریب دونوں یکساں پریشان ہیں۔ غریب دولت کی کمی سے پریشان ہے جبکہ امیر کو مزید کام کرنے کی، دولت بڑھانے کی اور پھر چھپانے کی فکر لاحق ہے۔ دولت کی کثرت اکثر انھیں پریشان کرتی ہے جو یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ اس مال کو چھوڑ کر مرنا بھی ہے۔ دراصل انھیں شیطان نے چھو کر باؤلا کردیا ہوتا ہے۔ ان کی ’’خواہش‘‘ ہوتی ہے کہ ہم بہت امیر ہوکر مریں، ہمارا جسم عطیہ کردیا جائے اور تمام مال خیرات کردیا جائے۔
دراصل انسان جب اندر سے پریشان ہو تو وہ کوئی پناہ گاہ تلاش کرتا ہے، تاکہ سکون حاصل کرسکے۔ کوئی خدا سے دل لگاتا ہے، کوئی جانداروں سے دل بہلاتا ہے، کوئی پیسے کو ترجیح دیتا ہے، اور کوئی تعلیم کو مقصد بناتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے امیر بننے کا مقصد اور درجہ بندی کیا ہے؟ اگر آپ صرف اپنی موجودہ زندگی سے راہ فرار اختیار کرنے کےلیے پیسے کی طرف رغبت رکھتے ہیں تو آپ اپنی زندگی میں بہت بڑی مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں۔
اور اگر آپ کا کوئی خاص مقصد ہے تو اس کی درجہ بندی کیا ہے؟ اکثر افراد حادثات سے خود کو محفوظ رکھنے کےلیے انشورنس کرواتے ہیں، مکان خریدتے ہیں، گاڑی خریدتے ہیں، اور پھر ہر سہولت حاصل کرنے کی جستجو میں امیر بننے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اس سفر میں وہ سکون سے محروم ہوجاتے ہیں۔ جبکہ حصول دولت کی صحیح درجہ بندی یہ ہے؛ مطمئن رہو، محفوظ بنو اور پھر امیر بنو۔ یعنی ابھی جس حال میں ہو یہی بہتر ہے، اسی میں مطمئن رہو، شکر ادا کرو، پھر زندگی میں مزید بہتری لانے کی کوشش کرو، سہولتیں حاصل کرو۔ اس اصول پر پیسہ کمانے سے دولت پریشانی کا سبب نہیں بنتی۔
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
دولت اور اقتصادی نظام
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کسب معاش اور رزق حلال بھی عبادات ہیں۔ اگر زیادہ دولت کمانا برا ہوتا تو رزق حلال کے احکامات، زکوٰۃ کے قانون اور وراثت کی تقسیم نازل ہی نہ ہوتے۔ دراصل چھوٹی سوچ دولت کو سمیٹ کر اپنے ہاتھ میں نقد رکھتی ہے، جبکہ بڑی سوچ دولت کو معاشرے میں صحیح جگہ صرف کرتی ہے۔ جیسے دنیا کہ تمام آجر (Entrepreneurs) کرتے ہیں۔ بلامقصد دولت کمانے سے طبیعت میں حرص پیدا ہوتا ہے، جبکہ بامقصد دولت بنانے سے معاشرہ مضبوط بنتا ہے۔ جیسے:
• ایک بار مدینے میں قحط پڑگیا تو حضرت عثمانؓ نے ہزار اونٹوں پر لادا اناج صدقہ کردیا، جو کہ تقریباً 400 ٹن کے برابر تھا، جس کی مالیت آج کروڑوں میں بنتی ہے۔ کروڑوں کا مال صدقہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے کروڑوں کمائے جائیں۔
• ہندوستان کے دولتمند مسلمانوں نے ہی مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی تھی، اگر وہ دولتمند افراد نہ ہوتے تو قیام پاکستان ناممکن تھا۔
• بل گیٹس نے بھی اگر یہی سوچا ہوتا کہ زیادہ دولت بری ہے تو آج کمپیوٹر کا استعمال پوری دنیا میں عام نہ ہوتا۔
دراصل آج کی دنیا میں ایک جانب سرمایہ دارانہ نظام ہے جہاں سب مال بکاؤ ہے، اور دوسری جانب سوشلزم ہے جہاں سب مال عوامی ہے- اور ایک راستہ ان کے درمیان کا ہے، جسے اسلامی اقتصادی نظام (Islamic Economics) کہا جاتا ہے۔ اس اقتصادی نظام میں حصول دولت کے مکمل حقوق واضح کیے جاتے ہیں۔
دولت مند افراد مستحکم ریاست کی اساس ہیں
آج برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، جاپان اور جرمنی جیسی ریاستیں مالی لحاظ سے طاقتور ہیں، کیونکہ ان معاشروں میں مالدار تجار کی بڑی تعداد رہتی ہے، جو اپنے ملک کو مالی معاملات میں مکمل سپورٹ کرتے ہیں- یہی تاجر برادری روزگار پیدا کرتی ہے، زیادہ زکوٰۃ، خیرات اور ٹیکس دیتی ہے۔ اور اگر ہم 640 عیسوی کی ریاست مدینہ کی بات کریں، تو وہاں کی حکومت بھی مالدار تھی۔ اسی لیے بیت المال سے ناداروں، بیواؤں، یتیموں، اور شہیدوں کے لیے وظیفے جاری ہوتے تھے۔ اگر اسلامی حکومت مالدار نہ ہوتی تو نہ اسلامی فتوحات ہوتیں، نہ اسلامی نظام دنیا تک پہنچتا، اور نہ ہی علمی درسگاہیں قائم ہوتیں۔
دولت ایک ذمے داری ہے
جب ہمیں طاقت ملتی ہے تو ہمارے اندر کا چھپا انسان باہر آجاتا ہے۔ ہم بدلتے نہیں، بلکہ ہمارا کردار عیاں ہوجاتا ہے۔ چھوٹا چور طاقتور ہوکر بڑا چور بن جاتا ہے، جبکہ چھوٹا سخی طاقتور ہو کر بڑا سخی بنتا ہے۔ جو شخص پچاس ہزار کماتا ہو مگر ہزار روپے بخوشی خیرات کرنے پر راضی نہ ہو، وہ کروڑوں کمانے پر بھی لاکھوں خیرات نہیں کرسکتا۔ دولت بھی ایک طاقت ہے، اس طاقت کو صحیح وقت پر صحیح جگہ لگانے کی سمجھ پیدا کیجیے۔
مختصر یہ کہ زیادہ دولت اپنے ساتھ زیادہ ذمے داری لے کر آتی ہے۔ جو لوگ ان ذمے داریوں کے ساتھ انصاف کرکے دولت کے تمام حقوق پورے کرتے ہیں وہ مستقبل میں اپنے بہترین کردار کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور جو انصاف نہیں کرپاتے وہ عیاش فرعون بن جاتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post زیادہ دولت، بڑی ذمے داری ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2GQRpew
via IFTTT


0 Comments