صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو یہ علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔آر ایس ایس کی مذہبی جنونیت کی وجہ سے ہندوستان اپنی ہیئت بدل رہا ہے، بھارت کو ہندو نسل پرست نظریئے اور فاشسٹ سوچ کے حامل لوگوں نے ایسے یرغمال بنایا ہوا ہے جیسے نازیوں اور نازی ازم نے جرمنی کو بنایا تھا۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ تصفیہ طلب عالمی مسئلہ ہے۔بھارت نے یکطرفہ اقدامات سے بین الاقوامی معاہدوں اور شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔موجودہ حکومت نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کمی، تجارت معطل کرنے، دوطرفہ تعلقات کا ازسِر نو جائزہ لینے اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں بھرپور طریقے سے اٹھایا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس جس کی صدارت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مشترکہ طور پر کی، سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ یہ پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے کہ 50 سال بعد مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زِیربحث لایا گیا خصوصاً جب بھارت اسے زیر بحث لانے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگا رہا تھا۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی )نے کشمیر میں بھارت کی جانب سے کیے جانے والے غیرقانونی اور جارحانہ اقدامات کی شدید مذمت کی ہے،اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے بھی اس معاملے پر58 ممالک کی حمایت سے مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں بھارت سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں تمام پابندیوں کو فوری طور پر ختم کرے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب بھارت کے لیے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے مخدوش تناظر میںایک دو ٹوک جواب تھا۔ صدر نے غیر روایتی انداز میںمودی حکومت کو للکارا اور ان پر واضح کیا کہ وہ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھے، انھوں نے کہا کہ بھارت جموں و کشمیر میں تمام پابندیوں کا خاتمہ کرے اور اقوام متحدہ کشمیر میں اپنے آزاد مبصربھجوائے۔
دریں اثناء پارلیمنٹ میں صدرکے خطاب کے دوران (ن) لیگی ارکان نے اپنے زیرحراست رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہ کرنے پر شدید احتجاج کیا۔لیگی ارکان ایوان میں شاہد خاقان عباسی،سعد رفیق اور رانا ثنااللہ کی تصاویر لے آئے،اسپیکرکے ڈائس کا گھیراؤ کرکے شدید نعرے بازی کرتے رہے لیکن اس شدید ہنگامہ آرائی کے باوجود صدر مملکت نے اپنا خطاب جاری رکھا۔اپوزیشن ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اسیر رہنماؤں کی تصاویرلہراتے رہے،اپوزیشن ارکان نے وزیراعظم کے سامنے آکر بھی گو نیازی گو کے نعرے لگائے۔
صدر مملکت نے ان تمام دوست ممالک کا بھی شکریہ اداکیا جنہوں نے کشمیر کے مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے سلامتی کونسل کے اجلاس کے کامیاب انعقاد میں اپنا کردار ادا کیا۔اس ضمن میں ہم چین کی کوششوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکا کا ذکرکرتے ہوئے صدر ڈاکٹر علوی نے کہا کہ اس دورہ نے گزشتہ چند سالوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی سرد مہری کے رجحان کو یکسر بدل دیا ہے اور دوطرفہ تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 9 لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی سے اس وقت کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے۔وادی میں کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے۔ غاصب بھارتی افواج غیرقانونی گرفتاریاں اورکشمیری خواتین کی عصمت پامال کر رہی ہیں۔ بھارت کی جنونی کارروائیوں سے 90 لاکھ کشمیریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بھارت مسلسل لائن آف کنٹرول کے پار غیر مسلح شہری آبادی پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے جنگ بندی معاہدوں کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان نے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ برائے پاکستان و بھارت کو متعدد بار بھارت کی جانب سے کی گئی لائن آف کنٹرول کی خلاف وزریوں کے بارے میں بتایا۔صدر نے کہا کہ سنگین جرائم کی پاداش میں کلبھوشن کو موت کی سزا سنائی تھی۔ پلوامہ واقعہ پر بھارت سے ثبوت مانگنے پر کوئی جواب نہیں ملا۔
بھارت نے پلوامہ حملے کو آڑ بناکر دراندازی کی کوشش کی، لیکن پاکستان کی مسلح افواج نے بھرپور جواب دیا اور بھارت کا طیارہ مارگرایا۔ ایک پائلٹ بھی گرفتارکرلیا گیا، لیکن وزیراعظم نے خیرسگالی کے طور پر گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو چھوڑ دیا۔بھارت ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھے۔انھوں نے بھارتی حکمرانوں سے کہا کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور حالت کو اس نہج تک نہ لے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سابق حکمرانوںکی کرپشن نے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا،موجودہ حکومت کوکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور گردشی قرضے ورثے میں ملے۔
محصولات کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے۔معاشی اعتبار سے ملک تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس لیے 2019 کے بجٹ میں سخت فیصلے کرنا پڑے۔تاہم حکومت کی پالیسیوں سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا۔توانائی کا بحران کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ وسائل لوٹنے والوں کا احتساب بھی جاری ہے ،سی پیک پاکستان اور چین دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس سے وسط ایشیا تک رسائی ہوگی۔ چین کے ساتھ آزادانہ تجارت سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے دروازے کھلیں گے۔ صدر مملکت نے موجودہ حکومت کا پہلا پارلیمانی سال مکمل ہونے پر مبارک باد پیش کی ۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب پر اپوزیشن نے احتجاج کا جو طریقہ اختیار کیا اس پر حکومتی حلقوں نے اعتراض کیا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ صدر وفاق کی علامت ہیںاور ان کا خطاب دنیا کے لیے بھارت کے باب میںایک چشم کشا پیغام تھا ۔
صدر نے غیر روایتی انداز میں مودی حکومت کا للکارا، انھوں نے قومی جذبات واحساسات کی بھرپور ترجمانی کی، اور کشمیریوں سے پاکستانی عوام کی لازوال محبت، وفاداری، عہد وپیماں اور سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا یقین دلایا کہ پوری قوم کشمیریوں کے ساتھ ہے، کشمیریوں کی نسل کشی برداشت نہیں کی جائے گی۔تاہم اپوزیشن کے استدلال کی بھی گنجائش موجود ہے، اصولی طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کوکسی بھی اعتبار سے متنازعہ نہیں ہونا چاہیے تھا، اپوزیشن کے خلاف احتساب ،کرپشن اور کیسز کی باتیں میڈیا میں دن رات ہورہی ہیں، میڈیا ٹرائل کی کیفیت شدت پذیر ہے۔
اس موقع پر اگربھارت کے خلاف حکومت اور اپوزیشن سمیت قومی بیانیہ دنیا کے امن پسند ملکوں ، سفارتی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار جیسی قوم کی طرف سے جاتا تو اس کی بات ہی کچھ اور ہوتی۔
پارلیمنٹ نے پیغام تو دیا لیکن بین السطور دنیا نے محسوس کیا کہ جس جرات مندانہ،بے باک اور متفقہ رجزیہ پیغام کی بھارت کے جنگ بازوں کے لیے ضرورت تھی اس میں کمی رہ گئی ، سیاسی تضادات،محاذ آرائی، کشیدگی اور ٹکراؤ کی پیدا شدہ صورتحال میں عالمی برادری تک مکمل سنجیدہ’’میسیج‘‘ پہنچنا چاہیے تھا۔ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ۔حکومت، اپوزیشن اور عسکری قیادت اپنے اتحاد سے بھارت کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔
The post صدر مملکت کا بھارت کو دو ٹوک جواب appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31mqyA2
via IFTTT
0 Comments