Subscribe Us

header ads

کینیا میں ملیریا کے خلاف عالمی تعاون سے مہم

مغربی افریقہ کے ملک کینیا میں ہلاکت خیز بیماری ملیریا کے علاج کے لیے خاص قسم کی ویکسین کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے جس سے ملیریا پر قابو پانے میں کامیابی مل سکتی ہے۔

واضح رہے ملیریا مچھروں سے پھیلنے والی ایسی خطرناک بیماری ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں آٹھ سو سے زائد بچے ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ کینیا اس بیماری کے خلاف کامیاب مدافعت کرنے والا افریقہ کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ اس نئی ویکسین کا لیبارٹری نام ’’آر ٹی ایس‘‘ رکھا گیا ہے ۔

ملیریا افریقہ میں وکٹوریہ جھیل کے اردگرد بسنے والے افراد کے بچوں کے لیے سب سے زیادہ ہلاکت خیز مرض ہے جو مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ افریقہ میں ملیریا کا شکار پانچ سال سے کم عمر بچے زیادہ ہوتے ہیں جن کی تعداد دنیا بھر میں مہلک بیماریوں کا شکار ہونے والے بچوں میں دو تہائی بچوں کی اموات اس بیماری سے ہوتی ہیں۔

ملیریا کے حوالے سے تحقیقات کرنے والوں میں کینیا کے ساتھ دو اور افریقی ملک: ملاوی اور گھانا بھی شامل ہیں جنہوں نے اس مرض کے خلاف اپنے الگ پائلٹ پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں۔ انسداد ملیریا کی ویکسین ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی معاونت سے فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ ویکسین ان علاقوں کے لیے جہاں ملیریا کا زور ہے تین مراحل میں استعمال کی جائے گی۔

بتایا گیا ہے کہ مغربی افریقی ممالک میں جو وکٹوریہ جھیل کے گرد و نواح میں واقع ہیں اس بیماری کے شدید خطرے میں ہیں۔ اس لیے اس ویکسین کا استعمال اسی علاقے میں شروع کیا گیا ہے۔

کینیا کی وزارت صحت کے مطابق کینیا میں ایک لاکھ بیس ہزار بچوں کو آر ٹی ایس ویکسین پائلٹ پروگرام کے تحت فراہم کی جائے گی۔ افریقی ممالک کو اگرچہ خاصا پسماندہ تصور کیا جاتا ہے مگر انسداد ملیریا کی مہم میں وہ دیگر ممالک کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ پاکستان سمیت کئی ایسے ممالک ابھی تک ڈینگی پر قابو نہیں پا سکے نیز ان ممالک میں پولیو وائرس نے بھی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

کینیا کی وزارت صحت کے مطابق 2016ء میں ملیریا کی وجہ سے دس ہزار سے زیادہ بچے ہلاک ہوگئے تھے ۔ ملیریا کے انسداد کے لیے تیار کی جانے والی نئی ویکسین سے امید پیدا ہو گئی ہے کہ افریقی ممالک کو ملیریا کے مہلک مرض سے ہمیشہ کے لیے بچایا جا سکے گا۔

The post کینیا میں ملیریا کے خلاف عالمی تعاون سے مہم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Qb6UWD
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments