جمعہ کو معاشی خوشحالی کے لیے علاقائی استحکام کے موضوع پر منعقدہ سمینار میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا ہے کہ پاکستان سے ماضی میں پیسہ باہر گیا اور لوگوں نے بیرون ملک محفوظ ٹھکانے بنائے، بیرون ملک بھیجے گئے سرمائے کو واپس پاکستان لانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، منی لانڈرنگ سے باہر گیا پیسہ واپس نہیں لا سکتے، کرپشن کا پیسہ واپس لائیں گے۔
شبر زیدی نے مزیدکہا کہ گزشتہ 20 سال میں پاکستان سے سالانہ 6 ارب ڈالر بیرون ملک گئے، پاکستان میں اب لوگ منی لانڈرنگ، اسمگلنگ، حوالہ ہنڈی پر بات کر رہے ہیں، ماضی میں اس موضوع پر بات نہیں کی جاتی تھی۔
بلاشبہ چئیرمین ایف بی آر نے بعض بنیادی مالیاتی اور اقتصادی حقائق پر سے پردے ہٹائے مگر ناقدین کا منہ کون بند کرے گا جو ماضی میں ملک سے لوٹ کر لے جانے والے پیسے کی واپسی کے لیے بلند افلاک دعوے کرتے رہے اور جن کے میڈیا پر انکشافات کے ڈنکے بجتے تھے۔
اگرچہ قوم کا حافظہ کمزور ہونے کے طعنے سنتی رہی ہے مگر قوم کو بتایا جائے کہ کہ ماضی میں باہر پیسہ لے جانے والوں نے اپنے عقابی نشیمن اتنے مضبوط کیسے بنائے تھے تو اس وقت اس حقیقت کا کسی کو علم تھا یا صرف میڈیا ٹرائل کے شوق میں حکومتی ترجمان ، مشیر ، معاشی مسیحا مست رہے اور اب چئیر مین ایف بی آر کو اس حقیقت کے کھلے اعتراف پر مجبور ہونا پڑا کہ باہر گیا ہوا پیسہ واپس نہیں آسکتا، صرف کرپشن کا پیسہ واپس لایا جا سکتا ہے۔ مگر اس یقین و عزم میں بھی کتنی استقامت ممکن ہے ، کیونکہ آج کا بیان کل کے گزرے بیانات کی دھند میںچھپ سکتا ہے۔
حقیقت میں معاشی حقائق کے درست ادراک اور قوم کو اقتصادی اور معاشی صورتحال کی درست تصویر دکھانا نہ صرف وقت کا تقاضہ ہی نہیں ملکی معیشت کے بارے میں دیئے گئے بیانات اور اقدامات کو نتائج کے گورکھ دھندے سے نکالنا بھی ضروری ہے۔
شبر زیدی نے حقائق کا ایک درست معروضی رخ پیش کیا جس کے نتیجہ میں ارباب اختیار اور حکومت کے قابل اعتبار معاشی ماہرین سے قوم اب یہ بھی توقع رکھے گی کہ لوٹا گیا پیسہ واپس نہیں آ سکتا تھا تو اس حقیقت سے چشم پوشی یا حقیقی عالمی اقتصادی اور مالیاتی میکنزم سے لاعلمی کی وجوہات کیا تھیں، قوم تو پی ٹی آئی حکومت کے معاشی شرلاک ہومز سے بجا طور پر اس بات کی توقع رکھتی تھی کہ سوئس بینکوں سے لے کر عرب امارات اور دیگر ممالک میں چھپایا گیا پیسہ واپس لانے کے لیے حکومتی عہدیدار اور مشیران با تدبیر کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے۔
تاہم اب بھی وزیراعظم کے کورٹ میں معاشی گیند موجود ہے، وہ اپنی ٹیم کی حقیقی معاشی کارکردگی میڈیا ٹرائل اور بیانات و ٹی وی ٹاکس میں کیے گئے دعوؤں کے دفاع میں ٹھوس شواہد، دستاویز اور ثبوتوں کے والیوم منگا لیں، قیتمی وقت اور پیسے کے ضیاع کا حساب لیں جو لوٹی گئی رقوم کی قانونی طریقے سے واپسی کی کوششوں میں خرچ ہوئی۔ یہ بھی قوم کا پیسہ تھا۔ اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ حکومت کی ترجیحات درست ہیں اور وہ درست پالیسیاں کہاں ہیں جو عملدرآمد کی منتظر ہیں۔
کیا میڈیا اینکرز اور معاشی مبصرین جن سرکاری محکموں ، اہم پیداواری یونٹس اور کارپوریٹ اداروں کے سربراہوں ، مینیجرز کی عدم تعیناتی کو ہائی لائٹ کر رہے ہیں وہ بلا جواز ہے۔ حکومت نج کاری کی ترجیحات اور اس پر عملدرآمد کی ڈیڈ لائن کو میٹ کر رہی ہیں تو اس پر بھی عوام اور بزنس کمیونٹی کو اطمیان دلائے۔ مسئلہ حکومت کی نیت پر شک کرنا نہیں بلکہ بے اعتباری کے اس دلدل کو ختم کرنا ہے جس میں پوری معیشت کمر تک دھنس چکی ہے۔
اگر ملک کے سنجیدہ اور فہمیدہ ماہرین معاشیات اقتصادی ٹورنامنٹ میں حکومت کی پرفارمنس پر شکوک کا اظہار کر رہے ہیں تو اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے، اپوزیشن کا معاشی صورتحال پر اپنا ایک موقف ہو سکتا ہے مگر عوام تو معیشت پر جھوٹ نہیں بول رہے، وزراء سے ان کی کارکردگی کی پوچھ گچھ ہونی تھی اس کا کیا ہوا، اور وفاقی کابینہ میںرد و بدل کا شور اٹھا وہ کیوں دب گیا۔ ایسے کیسے معاشی کشتی طوفان سے بچ نکل سکتی ہے۔ اس سوال پر جذبات سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔
شبر زیدی کا کہنا تھاکہ 1990 کی دہائی سے ہی سرمایہ بیرون ملک جانا شروع ہو گیا تھا، لوگوں نے دبئی اور بنگلہ دیش میں بھی سرمایہ کاری کی۔ ان کا کہنا تھا ہم پاکستان کے تمام بزنس ہاؤسز سے بات کر رہے ہیں، ہمیں اندرونی امن و استحکام کے لیے کام کرنا ہو گا۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا پاکستان میں بڑے شہروں کا پراپرٹی ٹیکس میں حصہ کم ہے، تہران سمیت دیگر ملکوں کے بڑے شہروں کا ٹیکسوں میں حصہ کہیں زیادہ ہے، یہ ملک اس طرح نہیں چلایا جا سکتا۔
انھوں نے کہا پاکستان سے سارا پیسہ قانونی طریقے سے باہر گیا، قانونی طریقے سے باہر جانے والا پیسہ واپس نہیں لایا جا سکتا، فارن کرنسی اکاونٹس کے ذریعے پیسہ باہر گیا، پاکستانیوں نے پیسہ قانونی طریقے سے بغیر ٹیکس ادا کیے بیرون ملک منتقل کیا، ماضی میں پیسہ بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ انھوں نے کہا ہم نے تعلیم اور صحت کے شعبے کی نجکاری کر دی، لیکن پچھلے بیس سال سے حقیقی نجکاری نہیں کی گئی۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا بیرون ملک بھیجی گئی رقم واپس پاکستان لانے کا طریقہ موجود نہیں، پاکستانی اب بھی اپنا سرمایہ بیرون ملک بھیج رہے ہیں، مالدار افراد نے اپنے گھر بیرون ملک بنائے ہوئے ہیں، ان کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں، زراعت سے کوئی ٹیکس نہیںآتا، ڈاکٹرز، انجینئرز ٹیکس نہیں دیتے، ریٹیلرز اعشاریہ تین فیصد ٹیکس دیتے ہیں، مینوفیکچرنگ شعبے سے 70 فیصد ٹیکس آتا ہے، سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے نہیں بڑھا رہے، سیلز ٹیکس کی شرح 18 یا 19 فیصد نہیں کر رہے۔ انھوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ سے باہر گیا پیسہ واپس نہیں لا سکتے، کرپشن کا پیسہ واپس لائیں گے۔
اس موقع پر عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر الانگو پاچا میتھو نے تقریب سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ معیشت کی بہتری کے لیے مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے، اگلے تیس سال میں پاکستان کا شمار بڑی معیشتوں میں ہو گا، پاکستان میں آبادی کا تناسب گروتھ ریٹ سے دوگنا ہے، پاکستان کی معیشت کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، حکومت کی ترجیحات درست سمت میں ہیں، رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں ٹیکس ریونیو میں پندرہ فیصد بہتری آئی، پاکستان کو صحت اور تعلیم کے لیے زیادہ فنڈزمختص کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش اور ویتنام میں ہیلتھ اورتعلیم کے لیے زیادہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے، پاکستان میں زرعی شعبے میں جدت لانے کی ضرورت ہے، کراچی معاشی سرگرمیوں کا مرکزلیکن اسے انفراسٹرکچر سمیت بہت مسائل درپیش ہیں، چھوٹے اوردرمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، پاکستان میںکاروبار کے لیے آسان طریقہ اورآسان ٹیکس سسٹم بہت ضروری ہے، حکومت ٹیکس سسٹم میںآسانیاں پیداکر رہی ہے، جنوبی ایشیا ممالک میں پاکستان کی برآمدات کم ہیں ۔
ادھر اطلاع ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر سیاسی ، مالی و اقتصادی بے یقینی کی صورتحال بڑھ رہی ہے، مالیاتی فنڈ نے 8 ممالک کو70 ارب ڈالر کی فنانسنگ و لینڈنگ فراہم کی جب کہ چار کم آمدنی رکھنے والے ممالک کو32 کروڑ 57 لاکھ ڈالر کی فنانسنگ فراہم کی۔ آئی ایم ایف ممبرممالک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جامع فنانسگ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ہمیں بھی داخلی طور پر موثر اور جامع معاشی نشاۃ ثانیہ کے لیے جست لگانی چاہیے۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کے ریمارکس ہیںکہ تجارتی حجم کم ہونا ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملکی معیشت سکڑنے کا تاثر درست نہیں۔
The post معیشت سکڑنے کا تاثر، ایک سوال appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OntdFZ
via IFTTT
0 Comments