اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دو ماہ کے لیے موجودہ پالیسی ریٹ 13.25فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کا اجلاس جمعہ کو اسٹیٹ بینک میں منعقد ہوا جس میں گذشتہ اجلاس سے اب تک حقیقی شعبے، بیرونی شعبے اور مالیاتی شعبے میں ہونے والی اہم پیش رفت پر اور ان کے نتیجے میں بننے والی زری صورتِ حال اور مہنگائی کے امکانات پر غور کیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی شعبے میں مسلسل بہتری ظاہر ہوتی رہی جو حالیہ پالیسی ردوبدل کے مثبت نتائج اور دیگر عوامل کی عکاسی کرتی ہے۔ جاری کھاتے میں مستحکم بہتری اور مالیاتی دْور اندیشی کے تسلسل کی بنا پر مارکیٹ کے احساسات بتدریج بہتر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ ماہ بہ ماہ مہنگائی کے حالیہ نتائج گذشتہ مہینوں کے مقابلے میں بلند رہے ہیں اور اگر ان کا تسلسل جاری رہا تو یہ مہنگائی کی توقعات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
ادھر دلچسپ حسن اتفاق ہے کہ مہنگائی کا موضوع ایک اور خبر میں موجود ہے جس میں مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ معیشت مستحکم ہورہی ہے،اور مہنگائی پر جلد قابو پالیں گے، اسٹیٹ بینک کی رپورٹ بھی اسی بنیاد پر قائم ہے کہ مہنگائی بلندی پر ہے چند ماہ میں کمی آجائے گی۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ملکی معیشت حکومت کے فوکس پر ہے مگر سیاسی صورتحال اور پیدا شدہ معاشی اور سیاسی لہر نے عوام کی زندگیوں کو بھونچا سے شدید متاثرکیا ہے اور عوام کے ایشوز پر بولنے والے ماہر تجزیہ کار ،اقتصادی دانشور اور سیاست دان معاشیات کے جاری بیانیے سے متفق ہونے پر تیار نہیں، انھیں حکومت کے اس انداز فکر اور تکرار پر بھی سوالات نے پریشان کردیا ہے کہ ملکی معیشت میں پیدا ہونے والا ہر مسئلہ پچھلی دو حکومتوں کی ناقص معاشی پالیسیوں اور سیاسی حکمت عملی کے گورکھ دھندے کا پیدا کردہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا اپنا تلخ طرز گفتگو بھی تخلیقی تغیر کے ساتھ صورتحال سے مطابقت پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، ان کے لب ولہجے سے اپوزیشن سمیت ملک ا فہمیدہ طبقہ بھی ایسے سوالات اٹھا رہا ہے کہ حکومت کب تک معاشی مسائل کا ملبہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کی بد اعمالیوںکے فکشن اور حقیقت پر ڈھول بجانے میںگزار دے گی، حکومت کی معاشی پالیسیوں پر معترض حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک سال تین ماہ جتنا عرصہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ملا ہے اس سپیس میں حکومت کو عوامی ریلیف اور جمہوری اقدامات اور اقتصادی پیش رفت کے لیے قابل غور منصوبہ بندی کرلینی چاہیے۔
ماہرین کے مطابق اسٹیٹ بینک، یا وفاقی و صوبائی حکومتوں کے معاشی معاملات پر میکنزم اور کاغذ پر موجود معاشی تفصیلات کا تذکرہ تو روز ہوتاہے، مشیر خزاہ، مالیاتی ادارے، معاونین خصوصی معاشی استحکام کے دعوے بھی کرتے ہیںاور اقتصادی استحکام کا چرچا بہت ہوتا ہے مگر ٹھوس نتائج کا نام ونشان نہیں ہے، صورتحال سماجی و معاشی سطح پر صورتحال جوں کی توں ہے، وہ چند اشیائے ضرورت کی قیمتوں کے حوالہ سے اس الجھن کا شکار ہیں کہ عوام کو لوٹنے والے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو عوام اپنی نظروں کے سامنے بے نقاب دیکھنا چاہتے ہیں، انھیں میڈیا پر پیش کیا جائے جو مڈل مین بن کر قوم کو معاشی چکی میں پیس رہے ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہر چیز مہنگی ہوتی جارہی ہے اور حکمراں خاموش ہیں۔
کوئی صوبائی اتھارٹی چیک اینڈ بیلنس کے لیے فعال ہی نہیں، اگر مہنگائی، بیروگاری اور غربت کے خاتمے کے واضح اثرات عوام کی زندگیوں پر مثبت اثرات نہیں ڈالیں گے کسی کو یقین نہیں آئے گا کہ ملکی معیشت کے اعلان سے ان کے معیارزندگی پر کوئی اثر بھی پڑا ہے۔ لوگوں کو آسودگی اپنے اندر محسوس ہونی چاہیے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق اگرچہ اکتوبر میں افراط زر11فیصد تک پہنچ گئی جس کی وجہ بجلی گیس کے سرکاری نرخ میں اضافہ اور اشیائے خوردونوش کی ترسیل میں عارضی تعطل ہے تاہم مستقبل قریب میں مہنگائی میں کمی کا امکان ہے جس کے اثرات رواں مالی سال کے دوسری ششماہی میں نظر آنا شروع ہوں گے اس تناظر میں اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال افراط زر11سے 12فیصد تک رہنے کا تخمینہ برقرار رکھا ہے اور موجودہ زری پالیسی موقف کو برقرار رکھنا مناسب ہے۔
مرکزی بینک نے مجموعی قومی پیداوار کے لیے بھی 3.5فیصد کا ہدف برقرار رکھا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پالیسی ریٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اس نقطہ نظر کا عکاس ہے کہ حالیہ تبدیلیوں نے مہنگائی کے منظرنامے کے مضمرات کا ازالہ کر دیا۔مہنگائی کا جائزہ لیتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ایک طرف مہنگائی بلندی کی طرف مائل ہے دوسری طرف، غذائی قیمتوں میں ہونے والے اضافے اس بلندی کے پس پردہ بنیادی اسباب ہیں جو متوقع طور پر عارضی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق نئے اشاریے کے مطابق اکتوبر 2019میں مہنگائی میں.0 11 فیصد (سال بہ سال) اور1.8 فیصد (ماہ بہ ماہ) اضافہ ہوا۔ یہ نتائج، خصوصاً حالیہ ماہ بہ ماہ نتائج توقعات سے کسی حد تک زیادہ تھے لیکن یہ زیادہ تر سرکاری قیمتوں میں اضافے پر مبنی ردوبدل اور غذائی اجزا میں بنیادی طور پر عارضی رسدی تعطل کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے کے عکاس ہیں۔ زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ مستقبل بین بنیادوں پر زری پالیسی اور حقیقی شرح ہائے سود کا موجودہ موقف مہنگائی کو آیندہ چوبیس مہینوں کے دوران 5 تا 7 فیصد کے ہدف کی حد میں لانے کے لیے مناسب ہے۔
مانیٹری پالیسی کے گزشتہ اجلاس سے اب تک ہونے والی تبدیلیوں پر غور کیا گیا جاری کھاتے میں چار سال کے بعد اکتوبر میں فاضل رقم کا آنا جاری کھاتوں پر کم ہوتے دباؤ کا ایک واضح اشارہ ہے حکومت کے بنیادی توازن میں مالی سال 20 کی پہلی سہ ماہی کے دوران فاضل رقم درج ہوئی جو مالی سال 16 کی دوسری سہ ماہی کے بعد ایسا پہلا موقع ہے۔ بیرونی شعبے میں مسلسل بہتری ظاہر ہوتی رہی جو حالیہ پالیسی ردوبدل کے مثبت نتائج اور دیگر عوامل کی عکاسی کرتی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران جاری کھاتے کا خسارہ 73.5 فیصد کم ہو کر 1.5 ارب ڈالر رہ گیا۔ اس بہتری سے درآمدات میں قابلِ ذکر کمی، برآمدات میں معقول نمو اور کارکنوں کی ترسیلات میں مستقلاً اضافے کی عکاسی ہوتی ہے۔
کمزور ہوتی ہوئی بیرونی طلب کے باوجود برآمدی حجم میں اضافہ ہوا بالخصوص چاول، ٹیکسٹائل مصنوعات، چمڑے کی مصنوعات، اور مچھلی اور گوشت کے معاملے میں۔ جولائی تا اکتوبر مالی سال 20ء میں ایف بی آر ٹیکس وصولیوں میں 16.2 فیصد (سال بسال) نمو ہوئی جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں 6.4 فیصد تھی۔ اخراجات کے لحاظ سے سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے وفاقی رقوم کی فراہمی جولائی تا اکتوبر مالی سال 20ء میں دگنے سے زائد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 257 ارب روپے ہو گئی جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں 105.5 ارب روپے تھی۔
ادھر مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ 4 ماہ سے اسٹیٹ بینک نے نوٹ چھاپنا بند کردیے ہیں، روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے، ہماری کوششوں سے برآمدات بڑھی ہیں۔ ایک ٹی وی گفتگو میں انھوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام کے سبب ملکی معاشی نمو کی شرح کبھی چار سال سے زیادہ نہ چل سکی۔ حقیقت میں عام آدمی کو شماریاتی معاملات کی سدھ بدھ نہیں رہتی ، وہ دو وقت کی روٹی کی تلاش میں ہے، اسے حکومت کے نتیجہ خیز اقدامات سے جمہوری ثمرات کا انتظار ہے ،باقی رموز مملکت خویش خسرواں دانند۔ مجبور عوام کو مت بھولیے۔
The post معیشت مستحکم بجا، مگر عوام …..؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35uSzHo
via IFTTT
0 Comments