Subscribe Us

header ads

ٹھوس معاشی سمت کی ضرورت

مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا، عوام حکومت کے اقتصادی ترقی،گروتھ ریٹ اور معیشت کے استحکام کے بیانیے سے لاتعلقی ظاہر کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جب کہ آٹے کی قلت اور روٹی مہنگی ہونے کے خوف نے اس کی تشویش میں مزید اضافہ کیا ہے، دو وقت کی روٹی ہر غریب کا حق ہے، اسے بنیادی سہولتیں ملیں یا نہ ملیں آٹا ، تیل، دال ، سبزی اسے دستیاب ہو، اس کی زندگی کی ساری دوڑ دھوپ دو وقت کے کھانے کے حصول کے لیے ہے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ارباب اختیار کو کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔

حکومت کو مہنگائی کے عفریت کا سر کچلنے اور اشرافیائی معاشی حکمت عملی سے کنارہ کش ہوکر معروضی معاشی صورتحال کا فوری احساس کرنا چاہیے ، کیونکہ معاشی بدحالی کے بعد اب آٹا بحران نے ملک میں اقتصادی استحکام پر سوال اٹھا دیے ہیں، حکومت کے معاشی مسیحا ریت سے سر نکالیں اور عوام کو آٹا سمیت بنیادی ضرورت کی تمام اشیا کی فراہمی کو ملک گیر سطح پر یقینی بنائیں، عوام اور حکومت کے پاس یہی ایک چوائس رہ گئی ہے۔ لوگ معاشی شماریات اور اعلامیوں سے زیادہ ٹھوس اقدامات اور فوری ریلیف کے متمنی ہیں۔ اس میںدیر نہیںہونی چاہیے۔حکمراں اشیائے ضرورت کی فراہمی کے لیے لاجسٹک اوراسٹرٹیجک پالیسی بنائیں۔آٹا سستاکریں۔

اخباری اطلاعات ہیں کہ پنجاب میںچکی اونرز ایسوسی ایشن نے آٹا6 روپے فی کلومہنگا کردیا ، نئی قیمت 70روپے ہوگئی ۔پنجاب حکومت کی جانب سے سرحدی چیک پوسٹوں کو فعال کیے جانے کے بعد صوبے کی گندم مارکیٹ کریش کرگئی ، قیمت میں120 روپے فی من کم ہوگئی ، چکی اونرز ایسوسی ایشن نے آٹے کی قیمت میں 6 روپے فی کلو کا اضافہ کر دیا، قیمت 64سے بڑھ کر 70روپے فی کلو ہوگئی۔

لاہور آٹا چکی اونرز ایسوسی ایشن کے مطابق گزشتہ چار ماہ میں گندم کی فی من قیمت میں 300سے 450 روپے تک اضافہ ہوگیا ہے اس لیے چکی کے آٹے کی قیمت میں اضافہ مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں اضافے کے باعث کیا گیا کیونکہ مارکیٹ میں گندم کی قیمت 2200 روپے فی من ہو چکی ہے،نئی قیمت کا اطلاق پورے پنجاب میں ہوگا،ایک سال کے دوران آٹے کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 18روپے فی کلو اضافہ ہوا۔لاہور آٹا چکی اونرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل نے میڈیا کو بتایا کہ اگر حکومت انھیں فلورملزکی طرح سستی گندم فراہم کرے تو وہ بھی سستا آٹا فراہم کر سکتے ہیں۔

ذرایع کے مطابق حکومتی عدم توجہی سے گندم کے ساتھ آٹے کہ قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ادھر چکی کے آٹے کی قیمت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مارکیٹ سے 20 کلو آٹے کا تھیلا بھی غائب ہونے لگا ہے ۔شہر کی بیشتر دکانوں پر فلور ملز کی طرف سے سپلائی کم کردی گئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے آٹے کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لے لیاہے ،انھوں نے جہانگیر ترین اور خسروبختیار کو پنجاب اورخیبرپختونخوا کے وزرائے اعلی سے مشاورت کرکے آٹے کی قیمتوں میں کمی لانے کا ٹاسک سونپتے ہوئے اقدامات کی ہدایت کی ہے ،اب وفاق پاسکو کے کوٹے سے خیبرپختونخواکو ایک لاکھ ٹن گندم فراہم کرے گا، حکومت رواں سال 3لاکھ ٹن گندم درآمد بھی کرے گی،گندم درآمد کرنے کے لیے سمری اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظور کرائی جائے گی ۔

ہمارے کراچی کامرس رپورٹر کے مطابق سال 2020 کا پہلا مہینہ عوام پر بھاری رہا، پٹرول، ایل پی جی، گھی اور خوردنی تیل ،گوشت ، سبزیوں کے بعد آٹے کی قیمت میں ہر ہفتے بعد اضافہ کا رجحان غالب رہا، سندھ کے سرکاری گوداموں سے فلور ملوں کو مبینہ طور پر گندم کی عدم فراہمی کے باعث اوپن مارکیٹ میںگندم کی تھوک قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

مارکیٹ ذرایع کے مطابق جمعہ کو اوپن مارکیٹ میں 100کلو گندم کی تھوک قیمت مزید 700 روپے کے اضافے سے 5500 روپے تک پہنچ گئی ہے، جو ایک ہفتے قبل4800روپے تھی، چکی آٹا 4 روپے مہنگا ہوکر70 روپے کلو ہوگیا، کیونکہ آج 100 کلو گرام گندم کی بوری5600  روپے میں مل رہی ہے،جسے دکانوں پر لانے کے لیے ٹرانسپورٹیشن، پسائی اور مزدوری کی مد میں فی کلو 10 روپے اخراجات آتے ہیں۔ یوں فی کلوگرام چکی آٹا 70  روپے میں فروخت کررہے ہیں، شہری رو رہے ہیں،کراچی ریٹل گروسرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین نے بتایا کہ فائن آٹے کی فی 50کلو ایکس مل قیمت2950  روپے ہوگئی ہے۔ڈھائی نمبر آٹے کی فی 50کلوقیمت2850ہوگئی ہے۔

عوام کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہر چیز پر ٹیکس دینے کے بعد مسلسل مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔

علاوہ ازیں لاہور اور راولپنڈی میں گندم کی قیمت 1950 روپے سے کم ہو کر 1830 روپے فی من پرسودے ہوئے ہیں جب کہ لاہور اور راولپنڈی سمیت صوبے میں فلورملز کی جانب سے آٹے کی فراہمی بڑھائے جانے کے بعد دکانوں پر آٹا اسٹاکس 70 فیصد بحال ہو گئے ہیں۔

چکی مالکان کی جانب سے بلا جواز کے آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو مقرر کیے جانے پر حکومت کی جانب سے گزشتہ روز کی گئی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ چکی مالکان کی جانب سے 2200 روپے فی من گندم قیمت کا جواز بے بنیاد اور من گھڑت ہے اور گزشتہ دو روز کے دوران صوبے میں گندم کی زیادہ سے زیادہ قیمت 1950 روپے فن تک گئی تھی جو کہ اب کم ہو چکی ہے آیندہ چند روز میں مزید 30 تا40 روپے کی کمی متوقع ہے ،جب کہ چکی مالکان فی کلو آٹے کی قیمت مقرر کرتے وقت 23 روپے پیسائی چارجز شامل کر رہے ہیں جو کہ انتہائی زیادہ ہیں کیونکہ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والی فلورملز اپنے بے تحاشا اخراجات کے باوجود فی کلو 5 روپے گرائنڈنگ چارجز لے رہی ہیں ۔

سرکاری حکام کے مطابق چکی مالکان عوام کے زیر استعمال آٹے کا 5 فیصد فروخت کرتے ہیں ، منظم مہم کے تحت چکی آٹا کی قیمتوں کو بڑھا کر حکومت کو چکیوں کے لیے سبسڈائزڈ گندم فراہم کرنے کے لیے بلیک میل کیا جارہا ہے۔گزشتہ چار روز سے لاہور میں یومیہ 1لاکھ90ہزار جب کہ راولپنڈی میں یومیہ 1لاکھ 60 ہزار تھیلے آٹا سپلائی کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں آٹا کی دستیابی 70 فیصد معمول پر آگئی ہے اور ٹرکنگ پوائنٹس پر بھیجا جانے والا آٹا 90 فیصد بچ جانے کی وجہ سے اسے مقامی دکانوں پر اتارا جا رہا ہے۔

حکومتی ذرایع کے مطابق چکی مالکان حکومت سے سبسڈائزڈ گندم کے حصول کے لیے مصنوعی بحران پیدا کر رہے ہیں۔’’ایکسپریس‘‘ کے رابطہ کرنے پر وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری نے کہا کہ چکی مالکان کا قیمت بڑھانا بلا جواز ہے۔

عوامی حلقوں اور سول سوسائٹی نے معاشی استحکام اور اشیائے ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں کی عدم دستیابی پر شدید غم وغصہ کا اظہار کیا ہے، سوال یہ کہ حکومت گرانی کو کنٹرول کرنے اور ایک مستحکم ،مربوط اقتصادی نظام دینے کے بجائے لنگر خانوں ،ہیلتھ کارڈ اسکیم اور دیگر عارضی اقدامات کی مد میں اربوں روے خرچ کیوں کررہی ہے،ملک میں مارکیٹ اکنامی کی سمت درست کیوں نہیں ہوتی، مل مالکان کو سبسڈی ملتی ہے، کسان رل گئے، کھاد مہنگی ہے، احساس پروگرام، درجنوں ٹاسک فورس، اتھارٹیز ، کمیشن اور کمیٹیوں کی بھرمار آخر نتائج کیوں نہیں دیتیں، حکومت کو وہ سفید پوش طبقہ کیوں نظر نہیں آتا جو کسی لنگر خانے یا پناہ گاہ میں نہیں جا سکتا، اس کی عزت نفس کا ادراک حکمران کب کریں گے، عام مزدور تو کہیںبھی فلاحی دسترخوان پر اپنی بھوک مٹا سکتا ہے مگر لاکھوں سفید پوش ایک منظم اقتصادی نظام کے طفیل اپنے معاشی حقوق سے کب بہرہ مند ہونگے، حکومت اربوں روپے ضایع کرنے کے بجائے ایک مستحکم اور عوام دوست معاشی نظام کیوں نہیں لاتی، یہ فوٹوسیشن والے اقدامات افلاس کے ماروں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ عوام کو مستحکم اور مربوط معاشی نظام سے ملنے والی ریلیف کا تسلسل درکار ہے۔

 

The post ٹھوس معاشی سمت کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NDroDN
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments