سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی میں ناکامی پر شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے احکامات پر عملدرآمد کی ہدایت کردی۔ کراچی رجسٹری میںچیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ کے روبرو سرکلر ریلوے سے متعلق سماعت ہوئی، اس موقعے پر سندھ حکومت، پاکستان ریلویز اور دیگر ادارے ناکامی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے رہے، چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے راستے میں آنے والی تمام عمارتیں گرا دیں، ہمیں اصل حالت میں کراچی سرکلر ریلوے چاہیے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کمشنر صاحب، آپ جائیں، آج ہی ساری عمارتیں گرائیں ، ایک ہفتے میں ریلوے کی زمین سے قبضے ہٹائیں، اگر عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو سب کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں گے، عدالت نے ریلوے اراضی پرائیویٹ پارٹی کو دینے پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
عدالت عظمیٰ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے درحقیقت شہر قائد کے سلگتے ہوئے مسائل پر بھی درد انگیزی کا اظہارکیا، میئرکراچی وسیم اختر ڈائس پر آگئے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جاننا چاہتے ہیں اب تک کیا پیش رفت ہوئی، میئرکراچی گیت سناتے ہیں مگر نہیں سنیں گے،کیا شہر میں دیگر غیر قانونی تعمیرات ختم ہوگئیں، بلدیات کو فعال کیوں نہیں کررہے، بلدیاتی نظام کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں، چیف سیکریٹری نے بتایا کہ سندھ حکومت نے بیشتر اختیارات میئرکو ہی دے رکھے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی کے سیوریج کے نظام کو کون دیکھے گا، کیا آپ کا پیسہ بھی لوگوں پر لگا، سارا پیسہ تو آپ لوگوں کی جیبوں میں جاتا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ لکھ کر دیں کہ بلدیاتی نظام کو فعال کیوں نہیں کر رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ نے کراچی کی اصل شناخت کے مسخ ہوجانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور اپنے ریمارکس میں سرکلر ریلوے کے سسٹم ، بلدیاتی نظام سے تجاہل عارفانہ برتنے اور شہر قائد کوکنکریٹ کا جنگل بنانے پر چشم کشا ریمارکس دیتے ہوئے سندھ بیوروکریسی، وزارت ریلوے ، سندھ حکومت اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے خلاف جمود شکن حقائق بیان کیے اور متعلقہ محکموں و با اختیار اداروں کے حکام کی غفلت، ان کے تساہل کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے یہ واضح عندیہ دیا کہ وہ شہرکو ماضی کی طرح صاف ستھرا، اور عوام کو بنیادی شہری حقوق سے بہرہ ور دیکھنا چاہتے ہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہمیشہ سے وسائل سندھ حکومت نے اپنے پاس رکھے، جب فنڈز نہیں ہوں گے تو بلدیات کیسے چلے گا؟ شہر میں میگا ٹرانسپورٹ منصوبوں سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے قرار دیا کہ گرین لائن منصوبے میں کوئی رفاہی جگہ نہیں آنی چاہیے، کراچی سے بسیں کہاں جاتی ہیں، 500 بسوں کا سنا تھا، افتتاح ہوا اگلے دن کہاں چلی گئیں، پورا شہر جام پڑا ہے۔
عدالت نے میئر کراچی سے کہا کہ سب آپ کی مہربانیوں سے ہو رہا ہے، سپریم کورٹ نے میئر کراچی کو باغ ابن قاسم سے مکمل قبضہ 2ہفتے میں ختم کرانے اور اسے اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس کے مطابق جب بسیں نہیں ہوتی تھیں تو سرکلر ریلوے ہی تھی، اگر سندھ حکومت نے ذمے داری لی تو پھر وزیراعلی سندھ کو بلا لیتے ہیں، ریلوے نے کچھ نہیں کیا تو آپ نے کیا کیا؟
آپ لوگوں کواپنا سیاسی ایجنڈا دیکھنا ہوتا ہے، آپ کبھی نہیں بنائیں گے، عدالت نے سیکریٹری ریلوے سے کہا کہ آپ کام نہیں کرسکتے تو گھر جائیں، ہمیں کچھ نہیں سننا، یہ بتائیں ہمارے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کوئی گاؤں نہیں پاکستان کا نگینہ ہوتا تھا، یہ ظلم کراچی کے ساتھ کیوں کیا گیا، صرف مفاد پرستی کی خاطر، سارے پارک ختم کردیے، پارک ہی نہیں قبرستان تک غائب کر دیے گئے ۔
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ریلوے کے24گیٹ ہیں اگر وہ کھولتے ہیں تو پورے شہر کا ٹریفک جام ہوجائیگا۔ شاید حکام یہ بھول گئے کہ اسی بندر روڈ پر ماضی میں ٹرامیں دو رویہ چلتی تھیں۔
بہرکیف کراچی کے ساتھ افسر شاہی کی تاریخ ساز سنگ دلی کا عدالت عظمیٰ نے بہت ہی درد مندی کے ساتھ نوٹس لیا ہے اور وقت کا تقاضہ ہے کہ سندھ حکومت ، وزارت ریلوے اور دیگر ذمے دار ادارے کراچی کی رونقیں واپس لوٹائیں، شہریوں کو ریلیف دیں اور عدلیہ کے احکامات پرعملدرآمد کے لیے شفاف میکنزم وضع کریں تاکہ کراچی کا کھویا ہوا وقار بحال ہو جائے۔
The post کراچی کی صورتحال اور عدالت عظمیٰ کے ریمارکس appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37aAOgR
via IFTTT
via Blogger https://ift.tt/2SqdKoY
February 08, 2020 at 09:52AM
0 Comments