Subscribe Us

header ads

معاملہ پارلیمان کی آبرو کا ہے

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈاآرڈرن نے کہا تھا کہ ’’میں نے فش اینڈ چپس کی دکان پر بھی اسی محنت اور تندہی سے کام کیا تھا جیسے میں پارلیمنٹ میں آج کر رہی ہوں۔ میں نے سیاست میں تجربات سے سیکھا ، لیکن جوکچھ میں نے سیاسی مسافت کی ہے محض سیاسی تجربات میری شناخت نہیں رہے ہیں۔‘‘

ان کی یہ بات بدھ کو یہاں قومی اسمبلی کے اجلاس کے تناظر میں ایک یاد دہانی کا وسیلہ بنی اور جس میں میڈیا نے جو منظر نامہ پیش کیا اس نے اس المناک راز پر سے پردہ ہٹا دیا کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی اور تقدس و توقیر کی سب باتیں ہیں ، وہ اہل سیاست جنھیں قوم نے اپنے ووٹوں سے کامیابی دلا کر پارلیمنٹ میں بھیجا انھیں ایک مینڈیٹ دیا گیا ہے ، وہ ایک جمہوری آدرش کے سفیر ، نگہبان اور پیامبر ہیں ، قوم کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں، سیاست بند گلی میں ہے۔

معیشت مسیحائی کی محتاج ہے، عوام بنیادی سہولتوں کے منتظر ہیں، وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومتی ترجیحات واضح ہوں ، ارکان اسمبلی قومی مفادات کے تحفظ اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کریں ، لیکن افسوس منتخب نمایندوں کے طرز استدلال ، مکالمہ کے معیار اور قومی مسائل کے حل کے لیے فہمیدہ اور سنجیدہ بحث مباحثہ کے اہم ترین فورم قومی اسمبلی میں عقل حیران تھی کہ قومی بحران کے نازک مرحلہ میں بھی پارلیمنٹ بحث کی اس تخلیقی جہت اور اظہار خیالات و جذبات کا وہ آئینہ پیش نہ کرسکی جس کا قوم کو انتظار تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو تو قوم کے سیاسی تشخص، عوامی نمایندوں کے فکر و نظر ، قانونی وآئینی باریکیوں کے ادراک ، وژن اور دور اندیشی کا استحقاق حاصل ہے، ہمارے سیاست دانوں کو اندازہ ہونا چاہیے کہ منتخب ایوان قوم کے نظام اقدار و تخیل کی عکاسی اور ترجمانی کرتے ہیں، مگر قومی اسمبلی میں جو گزشتہ روز ہوا ، وہ نہ ہوتا تو اچھا تھا ، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔

منظر نامہ یہ تھا کہ وفاقی وزیر عمر ایوب کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری کو مسٹر ’’ 10پرسنٹ‘‘ کہنے پر پیپلز پارٹی کے ارکان طیش میں آگئے اور شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔ پیپلزپارٹی ارکان نے عمرایوب کی نشست کا گھیراؤ کیا اور سابق صدر ایوب خان کے خلاف نعرے لگائے، پیپلزپارٹی ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں ، سید نوید قمر اور آغا رفیع اللہ وفاقی وزیر کی طرف لپکے تو فواد چوہدری اور حماد اظہر نے انھیں روک لیا ، آغا رفیع اللہ پی ٹی آئی کے ملک انور تاج سے گتھم گتھا ہوگئے۔

ڈپٹی اسپیکر مسلسل ارکان کوگتھم گتھا نہ ہونے کی ہدایت کرتے رہے مگر کسی نے ان کی بات نہ سنی جس پر ڈپٹی اسپیکرکو اجلاس کی کارروائی 10منٹ کے لیے معطل کرنا پڑی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کو درپیش مصائب پر بحث کرتے، صائب تجاویز دیتے جسے ملک کے کروڑوں عوام کی زندگی کی مشکلات میں کمی آسکتی، پارلیمان ہی وہ فورم ہے جہاں ووٹرزکی خواہشات کی تکمیل ان کے منتخب نمایندوں کی ذمے داری ہوتی ہے، ریاست اور حکومت ایک بار امانت اٹھائے ہوئے ہیں، کام تو وزیراعظم کی ٹیم کو کرنا ہوتا ہے، ایک سمجھدار ناخدا ہی طوفان میں گھری کشی کو پار لگاتا ہے، منتخب نمایندوں ، وزرا ، مشیروں ، معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج اپنے وزیراعظم کی رہنمائی میں قوم کو سیاسی، معاشی، تعلیمی ، فکری اور تاریخی کامیابیوں سے دوچار کراتی ہے، بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں ، سرکاری محکموں کو ایک فعال پارلیمنٹ ساتھ لے کر چلتی ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس اس امرکو یقینی بنانے کے لیے منعقد ہوتے ہیں ۔

بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر اورڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں ملکی معاشی صورتحال پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیرتوانائی عمر ایوب خان نے کہاکہ مشیر خزانہ نے دلائل کے ساتھ ایوان میں بات کی اورحقائق قوم کے سامنے رکھے، مگر اپوزیشن کی جانب سے کوئی بھی بات دلائل سے نہیں کی، ہم نے سوچا تھا کہ ہمیں تجاویز دی جائیں گی مگر ایسا نہیں ہوا ،آج یہ مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں ، مسلم لیگ(ن) نے 5 سال میں101فیصد زیادہ نوٹ چھاپے جس کا خمیازہ آج ہماری حکومت بھگت رہی ہے۔

قبل ازیں مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ریکارڈ خسارہ ملا۔ ڈالر کا ریٹ کم رکھنے کے لیے ریزروز میں موجود ڈالرز مارکیٹ میں جھونکے گئے، ہماری حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ ہم نے سب کچھ ٹھیک نہیں کیا لیکن معاشی اعشاریے مثبت ہیں۔

عین ممکن ہے کہ اگر اصلاحات کے بروقت اقدامات نہ ہوئے توہم بھی ناکام ہو جائیں گے۔ ان کاکہنا تھا کہ جب ہم آئے تواس ملک پر 30 ہزار ارب کا قرض تھا، ہماری برآمدات اوردرآمدات میں 20 ارب ڈالرکا فرق تھا۔ ڈاکٹرحفیظ شیخ نے کہاکوئی بھی خوشی سے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتا، حالات اورماحول ایسا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہوتی ہے۔ گزشتہ سات مہینوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںکوئی اضافہ نہیںکیا گیا۔

بعدازاں لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر یہ حکومت5  سال پورے کرگئی توپاکستان کا قرضہ دوگنا ہو جائے گا، اتنے ٹیلنٹڈ لوگوں سے ملک نہیں چل رہا۔ مشیر خزانہ نے سب باتیںکیں لیکن آٹے اور چینی کی قیمتوں کا ذکرکرنا بھول گئے،آٹے اور چینی کی مد میں روزانہ 2 ارب روپے عوام سے اضافی وصول کیے جا رہے ہیں ، اسپیکر صاحب ہمت کریں تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائیں، حکومت نے اگر 5 ہزارارب قرضہ واپس کیا ہے تو 12ہزارارب قرض لے لیا، اس کا کیا جواب ہے۔ اجلاس جمعہ تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

حکومت بلاشبہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصور کو عملی حقیقت کا روپ دینے کے لیے قانون کی حکمرانی کا ماحول ساز بناتی ہے، اور یہ ماحول پارلیمنٹ کی روح سے جڑا ہوتا ہے، ایک دانا کا قول ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان اپنی پارلیمانی حیثیت کے اعتبار سے معاشرے اور سیاسی لغت میں قابل تقلید درجہ رکھتے ہیں، ان کی اتنی توقیر ہونی چاہیے کہ عوام ان سے اپنے مسائل کے حل کی ہمیشہ توقع ہی نہ رکھیں بلکہ انھیں یقین ہو کہ پارلیمنٹ ان کے لیے بہترین قانون سازی میں دلچسپی رکھتی ہے اور انھیں جو مشکلات درپیش ہیں ، ان کے منتخب نمایندے ان کے ازالے اور داد رسی کے لیے پارلیمان میں آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔

ان کے دکھ دسکھ میں شریک ہیں، عوام کی فلاح و بہبود ، اداروںمیںہم آہنگی اور محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے جدوجہد میںمصروف ہیں اور خورونوش کی منڈی کی فورسز پر حکمرانوں کی گرفت مضبوط ہے، ملک بحران سے نکل جائے گا، عوام کی تقدیر بدلنے کی بس دیر ہے۔ جمہوری مکالمہ کے اسی سیناریو کو ابھارنا چاہیے، ایوان عوام کی آروزوں کی صحیح ترجمانی کریں گے تب ہی جمہوریت پھولے اور پھلے گی، عام آدمی کو اپنے منتخب نمایندوں کے وقار میں اضافے کا احساس ہوگا اور جمہوری رواداری ، شائستگی، صبر وتحمل اور مفاہمت کو فروغ حاصل ہوگا۔

اس میں دو رائے نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں روداری اور پارلیمانی نفاست اور آداب جمہوریت کا باب مکمل نہیں ہوا ہے، ابھی اس سمت میں بہت سفر طے کرنا باقی ہے، اراکین پارلیمنٹ پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے،حکومت کے اتحادی کیمپوں میں ابھی تک ہلچل ہے، رسہ کشی اور کشیدگی ، بدگمانی اور عہد شکنی کے الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ اپوزیشن آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کا مطالبہ کر رہی ہے، ایم کیو ایم اپنی راہیں جدا کرنے کا عندیہ دے رہی ہے، حفیظ شیخ صاحب معاشی بند گلی سے آواز دے رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں، خدارا ! سیاست دان اور سٹیک ہولڈرز پارلیمان کے تقدس کو یقینی بنائیں اور قوم سے کیے گئے وعدے پورے کریں ، اسی میں سب کی بھلائی ہے۔

The post معاملہ پارلیمان کی آبرو کا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SLKPvA
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments