Subscribe Us

header ads

مشیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ معروضات

مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ٹیکس وصولی اور معاشی اہداف کے حصول کے لیے کچھ لوگوں کو ناراض کرنا پڑا تو تیار ہیں، فائلر، نان فائلر کا فرق ختم کر رہے ہیں۔

دیگر وزراء کے ساتھ یہاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بجٹ میں سول اور فوجی اخراجات کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سول اخراجات کے لیے 431 ارب روپے رکھے ہیں، گزشتہ برس یہ بجٹ 460 ارب روپے تھا، فوج کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، یہ دنیا کے لیے اچھا پیغام ہے۔ موجودہ حکومت سے پہلے100ارب ڈالر قرض لیے گئے، ماضی کے قرضوں کا سود دینے کے لیے قرض لے رہے ہیں، 2900 ارب ماضی کے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے رکھے جا رہے ہیں۔

معاشی صورتحال کے مخصوص دباؤ کا ایک معروضی سچ تو یہ سامنے آیا ہے کہ وفاقی بجٹ جس اہتمام ، مالیاتی باریکیوں اور عوام احساسات و مارکیٹ مضمرات کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کیا جاتا تھا وہ مومنٹم سیاسی کشیدگی،اپوزیشن کی مزاحمتی تیاریوں نے محدود کردیا، بجٹ احتجاجی اسٹرٹیجی کے تحت کچھ مفاہمانہ تقاضوں کے ساتھ پیش ہوا اور اس قدر شورشرابہ ہوا جس کی ضرورت یا اجازت مرحمت کی گئی، تاہم یہ مستحسن انداز فکر تھا کہ جمہوری روایات کے تحت بجٹ تقریر شروع ہوئی ۔ لیکن مشیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ معروضات کا ملکی اقتصادی سسٹم کی تطہیر سے کوئی بڑا تعلق نظر نہیں آتا ، اپنی ماہیت اور تقاضوں سے بجٹ پروبنگ probing ضرور ہے، معاشی مسیحاؤں کو کسی خاض بریک تھرو کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم ، مشیر خزانہ اور وزرا تک سب اس نکتہ پر متفق ہیں کہ کسی کرپٹ ،نیب کو مطلوب افراد، منی لانڈرنگ ، بے نامی اور جعلی اکاؤنٹس میں ملوث عناصر کو چن چن کر نکالا جائے اور ان کی مشترکہ منزل جیل ہی ہونی چاہیے۔ یہ مائنڈ سیٹ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قائم ہونے والے اعلیٰ سطح کے کمیشن کے مقاصد اور عزائم سے بھی واضح ہوتا ہے، مگر جب ماہرین اور میڈیا کے فہمیدہ  حلقوں کی طرف سے آئینی و قانونی نکات سامنے لائے جاتے ہیں ، استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ نیب خود مختار ادارہ ہے ، وزیراعظم کے ماتحت بھی نہیں تو وزیرعظم کس طرح کسی کو این آر دینے ،نہ دینے اورجان  نہ چھوڑنے کی دھمکیوں اور دھونس کا بار بار میڈیا پر ذکرکرتے ہیں،اس سے تو حکومتی سطح پر کچھ اور پیغام جاتا ہے جب کہ تبدیلی کے مظہر بجٹ کے تیور اور اس کے مالیاتی،محصولاتی اور حکومتی ٹیکس اہداف کی نتیجہ خیز بھی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔

مشیر خزانہ کے مطابق برآمدی شعبہ کو زیرو ریٹنگ کی سہولت جاری رہے گی تاہم سامان کی مقامی فروخت پر ٹیکس لگے گا۔ جوخام مال پاکستان میں پیدا نہیں ہوتا اس پر کسٹم ڈیوٹی صفر کردی ہے، برآمدکنندگان پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا، اس نظام میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کر رہے۔ تاہم اس وقت مقامی شعبے میں 1200 ارب روپے کی ٹیکسٹائل کی سیل ہو رہی ہے لیکن ہمیں6 سے 8 ارب روپے ٹیکس ملتا ہے جو ناقابل قبول ہے۔ امیر لوگوں کو ملک کے ساتھ سچا اور مخلص ہونا ہوگا، ہمارے یہاں ٹیکس کی شرح 11، 12 فیصد ہے جو دنیا کی کم ترین شرح میں سے ایک ہے،آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہو چکا، آئی ایم ایف کا بورڈ تین چار ہفتوں میں پاکستان کی درخواست پر فیصلہ کرے گا۔ معاشی صورتحال پر سیاست سے گریز کیا جانا چاہیے۔

خراب معاشی صورتحال کے باوجود چند چیزوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا، سماجی تحفظ کے بجٹ کو 100 ارب سے بڑھا کر191 ارب روپے تک لے گئے،300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے سبسڈی کی مد میں216 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔

ایک صحافی نے سوال کیاکہ وزیر اعظم نے قرضوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ پی پی دور میں آپ کی وزارت خزانہ کے دوران 8000 ارب کا قرضہ لیا گیا تھا ،کیا آ پ بتا سکتے ہیں کہ یہ قرضہ کہا ں خرچ ہوا، اس پر مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہاکہ اگر حکومت قرضوں کا آڈٹ کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ میں اپنے احتساب اور قرضوں کاجواب دینے کے لیے تیار ہوں ۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے کہا کہ 80 فیصد فنڈنگ جاری منصوبوں کے لیے رکھی، جنوبی پنجاب، سندھ اور کے پی کے کم ترقی یافتہ علاقوں کے لیے 50 ارب رکھے ہیں۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ فاٹا کو152 ارب کا ترقیاتی پیکیج دیاگیا، یہ اس لیے ممکن ہوا کہ مسلح افواج نے اپنے بجٹ کو نہیں بڑھایا، گیس، بجلی پر انڈسٹری کو سبسڈی دیں گے۔

وزیرمملکت ریونیو حماد اظہر نے کہا حکومت نے صاحب حیثیت لوگوں کو ٹیکس دائرہ میں لانے کے لیے اقدامات کیے ہیں، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا380 کمپنیاں85 فیصد ٹیکس دے رہی ہیں، ٹیکس نہ دینے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیںگے۔ چینی کا ریٹ ضرور بڑھے گا مگر زیادہ نہیں۔ جو شعبے پوری صلاحیت کے مطابق ٹیکس نہیں دے رہے، ان سے ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا۔ کوئی منی بجٹ نہیں لایا جائے گا۔

بلاشبہ پوسٹ بجٹ حقائق پر ماہرین کی آراء جاری ہیں مگر انتظار بجٹ کے اثرات کا عوام الناس کی روزمرہ زندگی پر ہے، اس کے بعد ہی کچھ کہا جاسکے گا کہ بجٹ سے عام آدمی کا معیار زندگی بدلا ہے یا نہیں۔ باقی تو کہانیاں ہیں۔

The post مشیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ معروضات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2XaR1S5
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments