Subscribe Us

header ads

افغان سرحد پر نگرانی کے موثر نظام کا قیام

پاک فوج کی جانب سے ضلع خیبرسے منسلک افغانستان کے ساتھ سرحد پرباڑ لگانے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ 830کلومیٹر علاقے میں باڑ لگانے کا کام رواں سال مکمل کرلیا جائے گا، 70سے 80فیصد باڑ لگانے کا کام مکمل کیا جاچکا ہے۔

پاک فوج کے حکام کے مطابق سرحد پر جدید ترین کیمروں سے نگرانی کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے، خیبر سے متصل افغانستان کے ساتھ مجموعی طور پر 14سو کلومیٹر علاقے میں باڑ لگائی جائے گی جس میں سے 830کلو میٹر علاقے میں باڑ کا کام رواں سال مکمل ہو گا، سرحدی علاقے میں نگرانی کے لیے 700چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تکمیل سے دونوں ممالک کو دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے میں آسانی ہو گی‘ دہشت گردی دونوں ملکوں کا مشترکہ مسئلہ ہے مگر اس کا افسوسناک اور قابل تشویش امر سرحد پار خفیہ راستوں سے دہشت گردوں کا پاکستان میں داخلہ اور سیکیورٹی اداروں پر حملے ہیں۔

سرحد پار سے دہشت گردوں کے گروہ وقتاً فوقتاً پاکستانی سیکیورٹی اداروں پر حملے کرتے اور پھر فرار ہو جاتے ہیں‘دہشت گرد باڑ کی تنصیب میں مصروف پاکستانی اہلکاروں پر بھی متعدد بار حملے کر چکے ہیں‘ یہ حملے افغان سیکیورٹی اداروں کی لاپروائی اور سیکیورٹی کا مناسب انتظام نہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ اگر افغان بارڈر پر افغان حکام کی جانب سے سیکیورٹی کا مناسب انتظام ہو تو دہشت گرد کبھی پاکستانی سیکیورٹی اداروں پر حملہ نہیں کر سکتے۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کی طویل سرحد ہے‘ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد دشوار گزار اور کٹھن راستوں سے پاکستان میں داخل ہو کر سلامتی کے مسائل پیدا کرتے رہے ہیں‘ ان کا داخلہ روکنے کے لیے یہ ناگزیر ہو چکا تھا کہ بلوچستان سے لے کر خیبرپختونخوا تک افغان سرحد سے ملحقہ باڑ لگائی جائے‘ اس باڑ کی کل لمبائی 2611کلو میٹر ہے جس کی تکمیل پر 550ملین ڈالر کے اخراجات کا اندازہ ہے۔

اب جدید ترین سیکیورٹی کیمروں سے نگرانی کے عمل میں مزید آسانی پیدا ہوگی۔پاکستان کو سیٹلائٹ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اسے سرحدوں کی نگرانی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کے موجودہ حالات میں افغان مہاجرین کی موجودگی بھی پاکستان کی سلامتی اور امن و امان کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر رہی ہے‘ اس لیے بدلتے ہوئے حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ افغان مہاجرین کو جلد از جلد ان کے ملک واپس بھجوایا جائے تاکہ وہ اپنے وطن جا کر اس کی بہتر طریقے سے خدمت کر سکیں۔

افغانستان پر روس کے حملے کے بعد پاکستان 32لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ وزیر سیفران و انسداد منشیات شہریار آفریدی نے ایران کے نائب وزیر داخلہ حسین ذوالفقاری کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان انصار مدینہ کی تقلید میں اپنے مالی مسائل کے باوجود افغان مہاجرین کی مدد کر رہا ہے‘ دنیا تارکین وطن کے خلاف قانون سازی کر رہی ہے لیکن پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے افغان مہاجرین کو کیمپوں میں رکھنے کے بجائے انھیں عام پاکستانی کے برابر مواقعے فراہم کیے اور انھیں اپنے معاشرے میں شامل کیا‘ وزیراعظم عمران خان نے 14لاکھ افغان مہاجرین کو بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت دیکر انھیں پاکستانی شہریوں کے برابر قانونی حقوق دیے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کی ہونے والی وارداتوں میں افغان مہاجرین کے کیمپ بھی استعمال ہوتے رہے ہیں‘ ایران نے افغان مہاجرین کو ایک خاص علاقے تک محدود رکھا اور انھیں شہروں میں داخل نہیں ہونے دیا جب کہ اس کے برعکس پاکستان نے ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان مہاجرین کو کھلی چھوٹ دے دی جس کا پہلا نتیجہ ناجائز اسلحے اور منشیات کی بھرمار کی صورت میں سامنے آیا اور اب دہشت گردی کا عذاب بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اگر پاکستان ایران کی طرح افغان مہاجرین کو ایک خاص علاقے تک محدود رکھتا تو آج اسے ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ امریکا اور دیگر عالمی قوتیں دہشت گردی ہی کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں‘ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کے لیے عالمی سطح پر جو مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں وہ بھی دہشت گردی ہی کا شاخسانہ ہیں۔

کسی کی بلا اپنے سر ڈالنا عقلمندی اور دور اندیشی نہیں‘ پاکستان کی سلامتی اور امن و امان کا قیام سب سے اہم ترجیح ہونا چاہیے لہٰذا جتنا جلد ہو سکے اقوام متحدہ کے تعاون سے افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔ افغان مہاجرین کی بہترین مدد کا طریقہ یہ ہے کہ افغانستان میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے لیے روز گار کے مواقعے پیدا کیے جائیں تاکہ واپس جانے والے مہاجرین اپنے ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔

The post افغان سرحد پر نگرانی کے موثر نظام کا قیام appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2N4anF0
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments