سخت ترین سیکیورٹی کے حصار میں میانمار کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے حال ہی میں بنگلہ دیش کے علاقے کا کسس بازار میں قائم برمی پناہ گزینوں کے کیمپوں کا دورہ کیا ۔
بنگلہ دیش نے میانمار سے نکالے جانے والے یا نکلنے پر مجبور کیے جانے والے روہنگیا مسلمانوں کے عارضی ٹھکانے کے لیے قائم کیے ہیں۔ میانمار (سابقہ برما) پر اس مظلوم اقلیت روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے عالمی دباؤ سے مجبور ہو کر مذکورہ سرکاری وفد بنگلہ دیش روانہ کیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر میانمار کی حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے میانمار حکومت کو اپنا اعلیٰ سطح کا وفد بھجوانا پڑا ہے۔
میانمار حکومت کو انتباہ کیا گیا ہے کہ ملک میں روہنگیا مسلمانوں کی بحفاظت واپسی کے لیے سازگار حالات پیدا کریں۔ واضح رہے سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو ان کے آبائی وطن میں اس قدر ظلم و ستم اور تشدد کا شکار بنایا گیا کہ وہ گھر چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں بھٹکنا شروع ہو گئے۔ ان مجبوروں کی زیادہ بڑی تعداد بنگلہ دیش میں پہنچی ہے جب کہ قدرے کم تعداد تھائی لینڈ اور دیگر ممالک کی طرف بھی سمندری راستے سے گئی ہے اور کچھ تعداد بپھری ہوئی سمندری لہروں میں غرقاب بھی ہو گئی ہے۔
میمانمار کی حکومت نے روہنگیا پر 2016 اور 2017 میں ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا بنگلہ دیش پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں کی حکومت نے ان پر ترس کھاتے ہوئے ان کے لیے پناہ گزینوں کے کیمپ بنا دیے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دس لاکھ سے زائد روہنگیا بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کی طرف سے بنگلہ دیش پر زور دیا جا رہا ہے کہ ان پناہ گزینوں کو زبردستی واپس میانمار بھیجنے کی کوشش نہ کی جائے جب تک ان کے زندہ بچنے کی وہاں سے ضمانت نہ ملے، اس کے ساتھ ہی میانمار حکومت پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ان شہریوں کے ساتھ انسانوں کا سا سلوک کرے نہ کہ مسلح افواج کے ذریعے ان کی بستیوں کا گھیراؤ کر کے پوری کی پوری بستی کو نذر آتش کر دیا جائے اور جو جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کرے، اسے گولیوں سے بھون دیا جائے۔ میانمار کا اس حوالے سے موقف یہ ہے کہ روہنگیا مسلمان میانمار میں پیدا نہیں ہوئے، اس لیے وہ اسے اپنا ملک قرار نہیں دے سکتے۔ روہنگیا کی زیادہ آبادی ’’راخائن‘‘ کی ریاست میں رہتی تھی ۔
ماضی میں راخائن کا نام پورے برما کو دیا جاتا تھا بعد ازاں وہ برما کے بجائے میانمار بن گیا۔ راخائن میں ہی روہنگیا کی تعداد سب سے زیادہ تھی اور سارے مسلمان ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو ابتلا درپیش آئی ہے وہ کوئی نئی نہیں کیونکہ 1970 کے عشرے میں انھیں مجموعی طور پر میانمار کی شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا ۔گویا وہ اس وقت سے ہی بے وطنی کا شکار ہو رہے ہیں۔ میانمار میں 135نسلی گروپوں کو رجسٹرد کیا گیا ہے مگر ان میں روہنگیا شامل نہیں۔
The post بے وطن روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31f0eaL
via IFTTT
0 Comments