اس وقت قوم کو بہت سے چیلنجزدرپیش ہیں لیکن ان میں سرفہرست ملکی معیشت کا استحکام ہے۔ اسی اہم ترین تناظر میں وزیراعظم عمران خان اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ کراچی تشریف لائے۔ تاجر برادری کے مسائل شکوے، شکایات اورتجاویز کو بغورسنا اور پھرایک پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت کے معاشی وژن کی تشریح بھی آسان اورعام فہم الفاظ میں کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں دیانت دار حکومت قائم ہے جس کی وجہ سے عالمی برادری پاکستان کو پیسہ دے رہی ہے، قرضوں کے غیرمعمولی بوجھ کی وجہ سے آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر لینے پڑے۔ تاجروں کے ساتھ مل کرملک کو مسائل کی دلدل سے نکالیںگے۔
ملاقات میں تاجروں نے خرید وفروخت کے لیے شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے کا مطالبہ کیا، تاہم وزیر اعظم نے شرط ختم کرنے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ اب کاروبار پرانے طریقے سے نہیں چلے گا، یہ زیادتی ہے کہ پچاس ہزار سے بڑی خریداری پر شناختی کارڈ نہ دیا جائے۔ معیشت کے استحکام کے لیے صنعت کو ترقی دینا ہوگی، بزنس کمیونٹی کو ملاکر انڈسٹریلائزیشن کرنا چاہتے ہیں۔ ایف بی آرکو ٹھیک کریں گے5500 ارب روپے ٹیکس کا ہدف مل کر پورا کریںگے۔ تاجروں سے ٹیکس لے کر ملکی معیشت ٹھیک کرنا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ انھوں نے اپنے حال دل کھل کر بیان کیا۔
وزیراعظم ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں،انھوں نے دوست ممالک کے دورے کرکے پاکستان کے لیے اربوں ڈالر قرضہ حاصل کیا ہے ۔آئی ایم ایف سے بھی قرض کی پہلی قسط لینے میں کامیاب ہوئے ہیں، لیکن دوسری جانب ملکی معیشت ابھی تک ہچکولے کھا رہی ہے۔ ڈالر میں اتارچڑھاؤکے سبب مہنگائی کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اورعوام کے مسائل بڑھ گئے ہیں ۔
دوسری جانب آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ مالی سال2019-20کے اختتام تک ڈالر 172.53روپے تک پہنچ جائے گا، اس طرح روپے کی قدر میں27فیصد کمی ہوجائے گی۔ حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانا اور اس کی کڑی شرائط کو قبول کرنا بھی مہنگائی کا سبب ہے۔ اپوزیشن کے مطابق حکومت وزیراعظم نہیں بلکہ ریگولیٹرز اور آئی ایم ایف چلا رہا ہے ،جس کے نتیجے میں بجٹ کے بعد منی بجٹ لایا گیا ۔ اب ہر تین ماہ بعد بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں گے، جس کے نتیجے میں غریبوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
ادھر انجمن تاجران پاکستان کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ تیرہ جولائی کو ملک میں ہڑتال کی جائے گی ، ہڑتال سے قبل ہم مذاکراتی عمل میں نہیں جا رہے، کوئی گروپ مذاکراتی عمل میں جائے تو اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے تو پاکستان کی ہر صنعت کو بندکرکے اس کی چابیاں اسلام آباد کے ڈی چوک میں حکومت کے حوالے کریں گے کہ حکومت یہ نظام چلائے کیونکہ حکومت مسائل حل کرنے کے بجائے مختلف چیمبرز میں جاکر تاجروں کو الگ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بلاشبہ تاجروں کے جائزمطالبات حکومت کو فورا سے پیشتر حل کرنے چاہیئیں ،کیونکہ حکومت اور تاجر برادری کے درمیان محاذ آرائی ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہے۔
اس ساری سنگین صورت حال میں کچھ ایسے منصوبے ہیں جو تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہیںکہ ملائیشیا پاکستان میں پروٹان کارکا اسمبلی پلانٹ لگائے گا۔ اس بات کا اعلان ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کوالالمپور میں راولپنڈی چیمبر آف کامرس کی ایک تقریب سے خطاب میں کیا۔انھوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ملائیشیا کی کاروباری برادری پاکستان میں موجود مختلف تجارتی مواقعے سے فائدہ اٹھائے۔ بلاشبہ بیرونی سرمایہ کاری کی اس وقت پاکستان کو اشد ضرورت ہے تاکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔
مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد وشمارکے مطابق رواں مالی سال میں جولائی سے مئی کے دوران ایک ارب 60کروڑ 60 لاکھ ڈالر غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی جوگزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران 3 ارب 16کروڑ 10لاکھ ڈالر تھی۔
وسیع کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کوکنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے سخت اقدامات معاشی عدم استحکام کی وجہ رہے اور اس نے بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک سے دور رکھا، اسی طرح مئی میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی اور یہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران 31 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 23 کروڑ ڈالر رہی۔ گوحکومت اور ایس بی پی دونوں دعویٰ کرتے ہیں کہ معیشت سست ہے لیکن یقینی طور پر مشکل صورتحال سے نکل جائیں گے، تاہم گرتے ایف ڈی آئی کے اعداد و شمار ان کے دعویٰ کی حمایت کرتے نظر نہیں آتے۔ملکوں کی سطح پر چین سے کم ہوتی براہ راست سرمایہ کاری اس حکومت کے لیے اہم مسئلہ بن گیا ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت ملک میں سرمایہ کاری کے لیے شمالی پڑوسیوں پر تیزی سے انحصار کر رہی ہے۔
چین سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 11 ماہ کے دوران سب سے زیادہ 49 کروڑ 57 لاکھ ڈالر ہونے کے باوجود گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں ایک تہائی سے کم تھی۔ برطانیہ سے سرمایہ کاری کے بہاؤ میں کمی ہوئی اور یہ گزشتہ سال کے 28کروڑ 20لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 17 کروڑ 10 لاکھ ڈالر پر آگیا۔براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی حکومت کے لیے ایک ایسے مشکل وقت میں سامنے آئی جب اسے غیرملکی زرمبادلہ کی شدید کمی کا سامنا ہے اور وہ ڈالر جمع کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سمیت دوست ممالک سے رابطے کی کوششیں کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں امریکا سے سرمایہ کاری کا بہاؤ 11 ماہ کے دوران تقریباً آدھا 8 کروڑ 40لاکھ ڈالر ہوگیا جوگزشتہ سال کے اسی عرصے میں 14 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا، امریکا سے ایف ڈی آئی میں کمی کو واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان خراب تعلقات سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ امید ہے وزیراعظم پاکستان مجوزہ دورہ امریکا میں ان امور پر بھی امریکی انتظامیہ سے بات کریں گے۔ مذکورہ بالا رپورٹس یقینا ملکی معیشت اوراقتصادیات کے حوالے سے حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بین الاقوامی تجارت کے بغیر معاشی ترقی کا خواب سراب ہے۔ ملکی معیشت میںمارکیٹ پر مبنی فارن ایکسچینج پالیسی انتہائی اہمیت ہے، اسی سیاق وسباق میں گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنی ایک پریس کانفرنس کہا تھا کہ اب سے پاکستان Fixed ایکسچینج ریٹ کے بجائے مارکیٹ پر مبنی کرنسی ریٹ پر عمل کرے گا اورکرنسی مارکیٹ میں صرف اس وقت مداخلت کی جائے جب اس میں اتار چڑھاؤ (volatility ) بہت زیادہ ہوگا۔ان کا کہنا درست سہی کہ لیکن اب یہ اسٹیٹ بینک کی ذمے داری بنتی ہے کہ کرنسی مارکیٹ میں مقابلے کی حوصلہ افزائی کرے اورکسی کو اجازت نہ دی جائے کہ وہ مارکیٹ سسٹم کو ہائی جیک کرسکے۔
اگر ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کو مستحکم کر جاتے ہیں اور یہ مارکیٹ اسٹیٹ بینک اور حکومت کی غیر ضروری مداخلت سے محفوظ ہو جاتی ہے تو یہ ایک ایسا کام ہوگا جس کے اثرات طویل مدتی بنیادوں پر پاکستانی معیشت کو مضبوط اور مستحکم کر جائیں گے،اگر حکومت اپنی معاشی سمت کا تعین کرچکی ہے تو وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کو فورا اس پرکام کی اشد ضرورت ہے۔ معیشت مستحکم ہوگی تو ملک کی معاشی ترقی کا پہیہ رواں رہے گا۔
The post معیشت مستحکم کرنے کا چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32lHjw7
via IFTTT
0 Comments