آزاد کشمیر کی وادی نیلم کے علاقے لیسوا میں طوفانی بارش اور آسمانی بجلی گرنے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی مچ گئی ۔سیلابی ریلے کی زد میں آکر 28افراد جاں بحق ہو گئے۔ 170سے زائد مکان متاثر،ڈیڑھ درجن مکان اور 79دکانیں مکمل تباہ ہو گئیں۔آزادکشمیر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر نے اپنے پیغام میں انتظامیہ کو امدادی کاموں میں تیزی لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں متاثرین کی ہر ممکن مدد کی جائے۔
دوسری جانب گلگت بلتستان میں ندی نالوں میں طغیانی نے شگر کے کئی علاقوں میں تباہی مچادی، کئی گھر زیر آب، قیمتی اراضی، کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔برف کی پگھلاؤ کے عمل میں تیزی سے ندی نالوں اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ جگہ جگہ ندی نالے بپھر جانے سے کئی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے رواں ہفتے کے دوران ملک کے بالائی اور وسطی علاقوں میں تیز ہواؤں و آندھی اور گرج چمک کے ساتھ مون سون کی مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔
فطرت کی برہم اور بپھری طاقتوں سے لڑنا انسان کے بس کی بات نہیں ، اور ایسی صورتحال میں جب موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پوری دنیا اور ترقی یافتہ انفرااسٹرکچر کو درپیش چیلنجوں میں اضافہ ہورہاہے، انسانیت کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں وسیع تر انسانی وسائل کو بروئے کار لانا انتہائی ضروری ہے۔
آفات سماوی سے مقابلہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ سیاسی ارادہ اور سماجی ، صنعتی وٹیکنالوجیکل میکنزم سے ہر ممکن مدد لی جائے اور جدید ترین ٹیکنالوجی کو آفات سے بچاؤ میں استعمال کرنے میں تنوع اور جدت و ضرورت کا حسین امتزاج پیدا کیا جائے، مغرب نے آسمانی بجلی سمیت دیگر خطرات سے نمٹنے میں بڑی پیش رفت کی ہے ، وہاں مقامی سطح پر انسانی آبادیوں کو ڈزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق آلات کی تیاریوں پر زور دیا جاتا ہے تاکہ ماہرین کی امداد ، تکنیکی مشاورت اور حکومتی و مقامی اشتراک عمل سے ممکنہ تباہ کاریوں کو روکنا نتیجہ خیز ثابت ہوسکے۔
تاہم اصل ہدف ممکنہ نقصانات کا راستہ روکنا ہے، آزاد کشمیر میں گزشتہ چند روز سے ہولناک سیلابوں کے ریلے تیزی سے رونما ہونے والی ارضیاتی اور ماحولیاتی شکست وریخت اور تبدیلیوں کے غیر معمولی پیٹرن کی نشاندہی ہوتی ہے، عوام کو بھی بڑے پیمانہ پر آگاہی کے عمل سے دوچار کرنے کی ضرورت ہے، ضلعی اور مقامی انتظامیہ کوادراک کرنا ہوگا کہ فطرت کی بے قابو طاقتوں پر بند باندھنے کے لیے انسانی وسائل کے حد وحساب کا اندازہ لگانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، حکومت کو امداد باہمی کے تحت کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے، اختراعات اور ہنگامی پیش بندیوں سے بھی حالات کا رخ بدلنے میں نئے تجربات ملتے ہیں۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں ڈیڑھ درجن مکانات تباہ ہوگئے جب کہ 3 مساجد بھی زد میں آگئیں۔صورتحال کے پیش نظر اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز سعید الرحمان قریشی نے بتایا ہے کہ واقعہ میں بائیس افراد کے لاپتہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
میرپور کالج میں ہنگامی کیمپ قائم کر دیاگیا ہے جب کہ مظفر آبادمیں بھی ایمرجنسی کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔آزادکشمیر کے وزیر احمد رضا قادری نے کہا ہے کہ طوفان سے ڈیڑھ سو گھر ،تین مساجداور دو بنیادی مراکز صحت متاثر ہوئے ہیں۔بارہ گاڑیاں بھی لاپتہ ہیں۔ریسکیو ،سول ڈیفنس اور محکمہ صحت کی ٹیمیں بھی متاثرہ علاقے میں پہنچ گئی ہیں۔ریلیف کیمپ قائم کرکے متاثرین کو خوراک ،خیمے اور کمبل فراہم کیے جا رہے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج وادی نیلم میں سول انتظامیہ کی ریسکیو اورریلیف آپریشن میں معاونت کررہی ہے۔52افراد کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کیمپوں اور محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔سیلاب میں ڈوبنے والے افراد کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔وزیراعظم پاکستان عمران خان ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ،وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر،چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو،مولانا فضل الرحمان اور دیگر رہنماؤ ں نے نیلم حادثہ پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ اور جاں بحق ہونے والوں کی بلندی درجات، زخمیوں کی جلد صحت یابی اور ان کے اہل خانہ کے لیے صبر جمیل کی دعا کی گئی۔
بلاشبہ انسانی قیمتی جانوں کا ضیاع ہر درد مند انسان کو تڑپا دیتا ہے۔ معصوم انسانوں کو حفاظتی اقدامات کا یقین دلانے کا ہر ممکن طریقہ وضع کرنا شرط ہے، ایمرجنسی میں بے بسی کا کوئی پہلو ابھرنا نہیں چاہیے،بلکہ ہر شخص عوام کو مدد مہیا کرنے کے لیے دوسروں کو نفسیاتی کمک پہنچانے کا سسٹم وضع کرے چاہے وہ کتنا ہی وقتی ہو ، آفات کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات وقت سے پہلے مکمل ہوں تو نقصانات کا احتمال کم ہوتا ہے، مگر آفات کا تدارک کرنا ہر حکومت کی ذمے داری ہے۔
The post وادی نیلم میں ہولناک تباہی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32rQDyJ
via IFTTT
0 Comments