Subscribe Us

header ads

بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے

پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے کی جانے والی ایک اسٹڈی میں یہ بتایاگیا ہے کہ بہت سے بچے کئی سال تک اسکول میں پڑھنے کے باوجود بھی کوئی ایک جملہ بھی صحیح طرح سے نہیں پڑھ سکتے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ توجہ کثرت یا مقدار کے بجائے معیار پر مرکوز کرنی چاہیے۔ یہ اسٹڈی ولسن سینٹر کے زیراہتمام کی گئی۔

اس سینٹر کی گلوبل فیلو نادیہ ناوی والا کے حوالے سے میڈیا نے بتایا کہ کس طرح پاکستان کے تعلیمی بحران کا غلط اندازہ لگایا گیا اور غلط ہی تشخیص کی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں پرائمری کی عمر کے17ملین (ایک کروڑ ستر لاکھ) بچے اسکول جاتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں 5ملین (پچاس لاکھ) بچے اسکول جاتے ہی نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو بچے اسکول جاتے ہیں وہ بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ بہت سے بچے تو کئی سال اسکول میں گزارنے کے باوجود ایک جملہ تک نہیں پڑھ سکتے۔

اسکول جانے کے باوجود کچھ نہ سیکھنا ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں اس کی حالت خاصی خراب ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کو غیرملکی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔

مس نادیہ نے برٹش کونسل کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انگلش میڈیم پرائیویٹ اسکولوں میں 94 فیصد ٹیچرز خود انگریزی نہیں بول سکتے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان خود بھی بچوں کو تعلیم ان کی مادری زبان میں دینے کے حق میں ہیں۔ تعلیم میں بہتری کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگا دی جائے تاکہ پچاس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر نہ رہیں لیکن اسکولوں میں جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے پڑھ رہے ہیں۔

ان کی پڑھائی کے معیار کو بہتر بنانا بھی لازمی ہے۔ اسٹڈی میں بعض مفید مشورے بھی دیے گئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ بچوں کی تفہیم کا بھی سال بسال جائزہ لیا جانا چاہیے۔ تعلیمی معیار میں بہتری کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ پڑھنے کی مشق باآواز بلند اسکول میں کرائی جائے جس میں وقفے وقفے سے بچے کی تفہیم کا بھی جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ  پڑھنے والے بچے کو مفہوم کی سمجھ بھی آ رہی ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں بچے کی تھوڑی مدد بھی کی جا سکتی ہے اور جن الفاظ کا اسے مطلب سمجھ نہیں آ رہا ان الفاظ کو سمجھا دینا چاہیے۔

پڑھنے میں روانی پیدا کرنے کے لیے بار بار مشق کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نصاب کو اتنا آسان بنانا چاہیے جسے بچے کسی دقت کے بغیر سمجھ سکیں۔ جہاں تک اعلیٰ تعلیم کا تعلق ہے تو اس میں ایک سے زیادہ زبانیں سکھائی جا سکتی ہیں مگر ابتدائی تعلیم بچے کی مادری زبان میں دی جانی چاہیے بعد میں آگے جا کر وہ دوسری زبانیں بھی سیکھ سکتا ہے۔ دوسری زبانیں سیکھنے میں بھی اسے اپنی مادری زبان کی ابتدائی تعلیم بہت مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی زبان کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا مگر بچوں کی اصل تفہیم ان کی اپنی مادری زبان میں ہی ہوتی ہے۔

The post بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NZTyeP
via IFTTT

Post a Comment

0 Comments