وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت جمعرات کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم کے دورہ امریکا سمیت 10 نکاتی ایجنڈے پرغورکیا گیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ان کا دورہ امریکا کامیاب رہا،اس دورے میں پاکستان اپنے آپ کو برابری کی سطح پر منوانے میں کامیاب رہا، مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں پاکستان نے بھرپور کردار ادا کیا، وزیراعظم عمران خان کے مطابق پاکستان اور امریکا کے تعلقات ماضی کی نسبت مستقبل میں بہترین رہیں گے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔
ذرایع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ سابق سربراہان نے سرکاری خزانہ بے دریغ استعمال کیا ،ان سے عوام کے ٹیکس کا پیسہ واپس لیا جائے گا۔کابینہ نے فیصلہ کیا کہ سابقہ حکمرانوں کے دور میں مختلف وزارتوں میں بننے والے آڈٹ پیراجات اور ان کے جوابات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔وزیراعظم نے دورہ امریکا کے دوران 10کروڑ کی بچت کی۔
وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکا اپنے سیاسی و عالمی مضمرات، سفارتی اثرات ونتائج اور ملکی سیاست میں تبدیلی کی ممکنہ توقعات اور امکانات کے حوالہ سے ایک بڑی پیش رفت قراردیا گیا ہے، وزیراعظم کا امریکا سے واپسی پر شاندار اور فقیدالمثال استقبال کیا گیا، وزیراعظم کا فرط جذبات سے کہنا تھا کہ انھیں یہ محسوس ہوا کہ وہ دورہ سے صرف واپس ہی نہیں آئے بلکہ انھوں نے شاید ورلڈ کپ جیت لیا ہے، ان کی افغان امن پالیسی کے تناظر میں طالبان کی مذاکرات کے لیے راضی کرنے کی خبر کا بھی مثبت جواب افغان ترجمان کی طرف سے جلد آیا، افغان طالبان کا کہنا تھا کہ انھیں اگر وزیراعظم عمران کی دعوت ملی تو اسے ضرور قبول کریں گے۔ ان سے ملاقات بھی ہوگی ۔
مزید برآں افغان صدر اشرف غنی اور افغان حکومت سے بھی ان کی ملاقات کا امکان ہے، یہ حقیقت میں بڑی پیش رفت ہوگی،کیوںکہ افغان صدر کا طالبان سے ایک میز پر بیٹھ کر بات کرنے کا عندیہ امریکا سے طالبان کی قطر بات چیت کے ثمر بار ہونے کا اشارہ ہے، صدر ٹرمپ اور امریکی حکام کے لیے طالبان کی طرف سے عمران سے بات چیت پر رضامندی خطے میں تبدیلیوں کا بگل بجنا ہے،اس سے افغان امن عمل کی باقی ماندہ اسٹرٹیجی کی تکمیل کے بڑے ڈیل تک پہنچنا یقینی ہوسکتا ہے، مگر ابھی اس مرحلہ میں دشواریوں کے کئی پہاڑ کھڑے ہیں، افغانستان میں امن اور افغان عوام کی مشکلات کا خاتمہ خطے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک پیش قدمی سے کم نہیں۔
میڈیا کے مطابق طالبان نے پاکستان کے دورے کی دعوت قبول کرلی ہے تاہم زمینی حقائق امریکی دورے کے اثرات کے ساتھ ساتھ مختلف منظرنامہ کے ساتھ ابھرے ہیں ، عمران کا امریکا یاترا ایک طرف مستقبل کے سیناریو میں عوامی توقعات کے چراغ جلانے کے مترادف ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا ہے اب ڈو مور کا لفظ ذہن سے نکال دینا چاہیے، امریکا سے تعلقات نئے سرے سے استوار ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن نے 25 جولائی کو ملک بھر میں یوم سیاہ منایا، واقعات کا یہ تقابل بھی ملکی سیاست کے نئے پیراڈائم کی نشاندہی کرتا ہے، صورتحال اپنے فطری انداز میں سیاسی حقیقت پسندی کی جانب بڑھ رہی ہے مگر مبصرین کی استدلالی رائے یہ ہے کہ حکومت امریکی دورے کو توقعات اور امیدوں کا حاصل نہ سمجھے، ٹرمپ سے ملاقات،ان کے وعدے، عمران خان کے موقف اور پاکستان کو درپیش مسائل کا حل جب تک سامنے نظر نہ آئے ، عوام کسی قسم کی خوش گمانی کا شکار نہیں ہونگے۔
پی ٹی آئی حکومت امریکا کے دورے کا فالو اپ تیار کرے، اور شیڈول وضع کرے کہ جو کچھ دورے میں ہوا اس کے عملی اور ٹھوس نتائج سے پاکستان کو کب اور کہاں تک ثمرات ملیں گے ۔ بادی النظر میں پاکستان نے امریکا کے دورے میں بھارت کو ثالثی کی پچ پر پچھاڑ دیا ہے، یہ عمران کی گگلی تھی جسے ٹرمپ کے ریورس سوئنگ نے مودی حکومت کے لیے سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ کانگریس نے لوک سبھا کی نعرہ بازی میں بتایا کہ ٹرمپ کے ثالثی بیان پر پورا بھارت فکرمند ہے۔
بلاشبہ متحدہ حزب اختلاف کے قائدین نے یوم سیاہ منایا ، عام انتخابات 2018 ء میں دھاندلی کے خلاف تقاریر کی، کراچی،اسلام آباد،پنڈی،لاہور، کوئٹہ، پشاور سمیت چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے اور ریلیاں نکالیں۔جب کہ تحریک انصاف نے انتخابات میں کامیابی کا سال مکمل کیا اور ملک بھر میں یوم تشکر منایا۔ حکومتی رہنماؤں نے کہا کہ 25 جولائی کو عوام کے مجرموں کے انجام کا دن ثابت ہوا۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں اور مبصرین نے ملکی سیاست میں رواداری ، جمہوری بلوغت اور حقیقت پسندی پر مبنی سیاسی تعلقات کی تشکیل نو کے حوالہ سے حالیہ سیاسی سرگرمیوں کو مثبت اشاریہ سے تعبیر کیا ہے، ملک میں احتجاجی جلسے ہوئے ، اپوزیشن کے جلسوں میں حکومت پر کڑی نکتہ چینی کی گئی، تمام رہنماؤں نے اپنا جمہوری حق استعمال کیا، امن وامان اور قومی سالمیت کے حوالہ سے ٹھوس اقدامات کیے گئے، پولیس نے مختلف شہروں میں بدامنی کے اندیشہ کے پیش نظر دفعہ 144 کے تحت مقدمات درج کیے تاہم ہنگامہ آرائی ،ٹکراؤ کے اکا دکا واقعات کے سوا کسی قسم کے ناخوش گوارواقعات پیش نہیں آئے۔
کابینہ اجلاس میں وزیراعظم کی کفایت شعاری کے حوالہ سے بتایا گیا کہ وزیراعظم خصوصی طیارے کے بجائے کمرشل پرواز سے امریکا گئے، سفارتخانہ میں قیام کیا، مہنگی گاڑیاں بک کرانے کے بجائے میٹرو میں سفر کیا۔
وفاقی کابینہ نے پانچ ریگولیٹری اتھارٹیز کے انتظامی اختیارات متعلقہ وزارتوں سے لے کر کابینہ ڈویژن کو منتقل کرنے، پاسپورٹ سے پیشے کا کالم ختم کرنے اور وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکریٹری برائے اخراجات کو قرضہ تحقیقاتی کمیشن کا سیکریٹری مقرر کرنے اور دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی منظوری دی۔ کابینہ نے 17 جولائی کو ہونے والے ای سی سی اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی بھی توثیق کی۔ جب کہ صحافیوں کے آٹھویں ویج بورڈ میں مزید چار ماہ کی توسیع کی منظوری دی۔
لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی معیشت کی فکر کی جائے، داخلی اور سیاسی کشیدگی اور الزام تراشیوں کا باب بند کرکے اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے، احتساب، منی لانڈرنگ اور کرپشن کیسز کے معاملات عدلیہ کی ڈومین میں ہیں ،ان پر میڈیا ٹرائل کے بجائے حکومت عوام کو معاشی ریلیف مہیا کرے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی بجٹ اپنی ساکھ کھو چکا ہے،ایک جانب وزیراعظم کا کہنا ہے کہ 10کروڑ کی بچت کی دوسری طرف سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے پاس 10 لاکھ نہیں تو چندہ مانگنا شروع کر دے۔ یہ تقابل حکمرانوں کے لیے چشم کشا ہے جب کہ معیشت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اگلا سال عوام کی ریلیف اور فلاح وبہبود کے لیے وقف ہونا چاہیے۔
The post وفاقی کابینہ کا اجلاس اور دورہ امریکا کا جائزہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YulCea
via IFTTT
0 Comments