افغان دارالحکومت کابل میں اتوار کو روز شادی کی ایک تقریب میں خود کش دھماکے سے 63افراد جاں بحق اور 182زخمی ہوگئے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پیغام میں اس دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ‘ انھوں نے کہا کہ ایسے بہیمانہ حملوں کے ذریعے جان بوجھ کر عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق دھماکے کی ذمے داری داعش نے قبول کی۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا گیا کہ دہشت گردی امن کے لیے خطرہ ہے‘ اس کے خاتمے کے لیے مل کر اقدامات اٹھانا ہوں گے‘ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے دھماکے میں لوگوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کابل بم دھماکے میں ہونے والی شہادتوں پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معصوم جانوں کو نشانہ بنانے والے انسانیت کے دشمن ہیں‘ پاکستان نے خود دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے۔افغان صدر اشرف غنی نے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے وحشیانہ اقدام قرار دیا‘ انھوں نے طالبان پر دہشت گردوں کو مواقعے فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔
کابل بم دھماکے میں اتنی بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے‘ ان شہریوں کا کسی حکومتی یا سیاسی ٹولے سے کوئی تعلق نہیں‘ وہ تو عام شہری تھے جو شادی کی تقریب میں آئے ہوئے تھے‘ ایسی صورت میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا انسانیت کی توہین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان ترجمان نے اس بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی۔
طالبان اس وقت افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا سے مذاکرات کر رہے ہیں جس کا واضح مقصد یہ ہے کہ افغان سرزمین پر ایک طویل عرصے سے جاری جنگ اور افراتفری کا خاتمہ کر کے وہاں حالات بہتر بنائے جائیں‘ ایسی صورت میں افغان طالبان بے گناہ شہریوں کو ہلاک کر کے کوئی منفی پیغام نہیں دینا چاہتے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فوری طور پر اس کی تردید کی تاکہ اس انسانیت سوز اور بہیمانہ واقعے میں انھیں ملوث نہ کیا جاسکے۔
داعش نے دھماکے کی ذمے داری تو قبول کر لی مگر ان مقاصد کو واضح نہیں کیا جن کی خاطر وہ یہ گھناؤنا اور انسانیت سوز فعل سرانجام دے رہے ہیں۔ بدقسمت افغان سرزمین گزشتہ کئی دہائیوں سے امن کے لیے ترس رہی اگر کوئی ایک قوت خانہ جنگی کا راستہ چھوڑ کر امن کے لیے مذاکرات کا ڈول ڈالتی ہے تو کوئی دوسری قوت اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے دہشت گردی کا عمل شروع کر دیتی ہے۔ داعش کو جو قوتیں اپنے منفی مقاصد کی تکمیل کے لیے افغانستان لے کر آئیں ان سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ ان کے اس کے پس منظر میں کیا مقاصد ہیں۔
داعش کا وجود افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار ہے اور وہ ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے‘ چند روز پیشر کوئٹہ میں مسجد میں بم دھماکے سے امام مسجد سمیت 4افراد شہید اور 23زخمی ہو گئے تھے۔ دہشت گردوں نے اس وقت بلوچستان کو اپنا ٹارگٹ بنا رکھا ہے اس لیے پاکستان کی بھرپور خواہش ہے کہ افغانستان سمیت پورے خطے میں امن قائم ہو تاکہ علاقے میں خوشحالی اور ترقی کے نئے سفر کا آغاز ہو سکے۔
پاکستان نے کابل دھماکے کے حملے کی ذمے داری داعش کے قبول کرنے کے دعوے کی بنیاد پر ایک پاکستانی شہری کو ملوث ہونے کی کوشش کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے‘ اس نے خود دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیے موثر اور کامیاب کارروائی کی ہے۔
داعش کا وجود افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے لہٰذا اس عفریت سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کو مشترکہ طور پر حکمت عملی وضع کرنی چاہیے کیونکہ یہ دونوں کی سلامتی اور بقا کا مسئلہ ہے۔ وہ قوتیں جو داعش جیسی تنظیموں کی سرپرستی کر رہی ہیں ان کو بھی منظرعام پر لانا چاہیے۔
افغانستان کے صوبہ بلخ میں بھی سڑک کنارے نصب بارودی سرنگ پھٹنے سے خواتین اور بچوں سمیت 12شہری جاں بحق ہوئے۔ دہشت گردی کی یہ وارداتیں اس امر کی اغماز ہیں کہ افغان سرزمین پر ایسی منفی قوتیں موجود ہیں جو وہاں کسی بھی صورت امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ لہذا ان امن دشمن قوتوں کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ طور پر آگے بڑھنا ہو گا۔
The post کابل میں شادی کی تقریب میں خود کش دھماکا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HijVXA
via IFTTT


0 Comments