ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور کاروباری شہر قائد میں انفرااسٹرکچر کی زبوںحالی کا ذمے دار کون ہے؟ وہ اسٹیک ہولڈرز کون ہیں جن کا کنکریٹ جنگل جیسے اس شہر میں کوئی اسٹیک نہیں مگر وہ پوائنٹ اسکورنگ کرتے اور شہر کی اونر شپ لینے پر بھی تیار نہیں؟ کیا کچرا ٹھکانے لگانے کی مہم کراچی کے مسئلہ کا دائمی حل ہے یا اسے ایک فزیکل اور موثر اربن پلاننگ پر مبنی کسی فالٹ فری نظام کی ضرورت ہے۔
ماس ٹرنزٹ پروگرام ایک موثرترین ذریعہ تھا ،اسے کیوں غیر موثر بنایا گیا، سرکلر ریلوے کے ڈرامہ کا کیا بنا؟ا اور اس دن کا انتظار کیوں کیا جارہا ہے کہ سارے ادارے اگلے مون سون کے موقعے پر پھر سے دست وگریبان ہی ہوتے نظر آئیں ،شہر کو سیلا ب بہا لے جائے اور کوئی مژگاں نہ کھلے ۔میڈیا میں یہ سوال پوری شدت کے ساتھ گردش کررہا ہے کہ سندھ حکومت، ایم کیو ایم کے تمام دھڑے ،میئر کراچی ، لوکل گورنمنٹ کی انتظامیہ، ڈی ایم سیز، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ،کراچی کے وفاقی ممبران اسمبلی، سینیٹرز اور وفاق کی جانب سے کراچی کو اس گرداب سے نکالنے کا فیصلہ کب ہوگا۔
المیہ یہ ہے کہ ماضی میں جن سیاسی حکومتوں اور ’’ان ٹچایبلز‘‘ نے اس شہر پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کی وہ بھی سارا ملبہ دوسروں پر گرانے میں پیش پیش ہیں۔ شہر کی اونر شپ سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن کوئی کراچی کے زخموں پر مرہم رکھنے پر تیار نہیں بلکہ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کس کے ترکش کا تیر سب سے زیادہ زہریلا ہے جو اس شہر بے مثال کی جان بلب صورتحال کا قصہ ہی تمام کردے۔ اگر کراچی کی انتظامی کسمپرسی اور صحت و صفائی کے معاملات کی ابتری کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ’’مسٹری آف کراچی ‘‘کے ناگزیر کرداروں کے پاس سوائے پشیمانی کے کچھ اور نہیں بچے گا۔
جس سفاکی کے ساتھ ایک وسیع المشرب اور بندہ نواز شہر، ثقافتی مرکز اور ملک کے اقتصادیانجن کو لاوارث بنادیا گیا اس احساس جرم کے ساتھ اگر احساس زیاں کا بھی ارباب بست وکشاد تھورا سا اہتمام کردیتے تو اس شہر کی وہ حالت کبھی نہ ہوتی جو آج مائی کولاچی کے اجڑے ورثہ کی دیکھنے کو ملتی ہے۔
حقائق انتہائی تلخ ہیں۔ کراچی آج کی اربن تاریخ کا سب سے عبرت انگیز چیستاں ہے۔ اس کی الم ناکی خون کے آنسو رلاتی ہے،اور سیاستدانوں کے پاس شہر کے مسائل کا کوئی حل نہیں ، سب بلیم گیم میں مصروف ہیں، ہر سیاسی جماعت کی کوشش یہی ہے کہ اس کی تردامنی پر کوئی کوئی انگلی نہ اٹھے اور ہر الزام ’’الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا۔ ‘‘ میڈیا نے جتنے مباحثے ،ٹاکس، بیٹھکیں اور تجزیے پیش کیے ہیں ان سے یہی نتیجہ نکلا ہے کہ کراچی کی بے سروسامانی اور تباہی وبربادی کا قصہ سیاسی قوتوں اور بے اختیار اداروں میں ’’ساس بہو ‘‘کے جھگڑوں کا میلو ڈرامہ ہے۔
بتایاجاتاہے کہ مسئلہ یونٹی آف کمانڈ کا ہے،بلدیاتی اداروں کی فنڈنگ کا مسئلہ نہیں، اصل خرابی نظام کے فقدان کی ہے ، وقتی مہم بازی سے شہر کے انتظامی، تہذیبی، مالیاتی، سیاسی اور معاشی تضادات دور نہیں ہونگے، ایک ماسٹر پلان کی ضرروت ہے۔
میئر کراچی وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا پر برہم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت انھیں قابو کرے،وہ حالات کا کوئی ادراک نہیںرکھتے، میئر یہاںتک کہہ گئے کہ انھیں دخل درمعقولات سے روکانہ گیا تو پھر ہم وفاقی حکومت سے الگ ہونے کا بھی سوچیں گے، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی سے وفاقی وزرا کی موجودگی بھی اداروں کی افراط وتفریط ختم نہیں کرسکی۔ پی ٹی آئی نے کراچی کو ایک سال میں مسائلستان بنادیا۔
وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے کہا ہے کہ کراچی میں مردم شماری غلط ہوئی ہے اسی وجہ سے شہر میں مسائل زیادہ ہیں، صفائی کے 20 دن میں 48 ہزار ٹن کچرا نالوں سے صاف کیا گیا، اسی وجہ سے 150 ملی میٹر بارش کے باوجود شہر کی سڑکوں پر پانی جمع نہیں ہوا، ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایف ڈبلیو او کے دفتر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر ایف ڈبلیو کے نمایندے اور تحریک انصاف کے اراکین قومی و صوبائی بھی موجود تھے۔
وفاقی وزیر علی زیدی نے شہر میں ہونے والی صفائی مہم کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی، ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے بڑے نالوں سے 20 دن میں 48 ہزار ٹن سے زائد کچرا نکالا ہے جس کو اب لینڈ فل سائڈ پر ڈالا جا رہا ہے، انھوں نے کہا کہ یہ کام صرف ایف ڈبلیو او ہی کر سکتا ہے، وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا کہ میں ہاتھ جوڑ کر وزیر اعلیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ کراچی کو صاف کریں شہر کی حالت بہت خراب ہوگئی ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ سوال یہی ہے کہ کام پھر کس کا ہے؟اہل کراچی کس سے فریاد کریں۔
The post کراچی کو اربن ماسٹر پلان کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MDrnk8
via IFTTT
0 Comments