پنجاب کے شہر نارووال کے قریب ظفروال شکر گڑھ روڈ پر ٹریفک کا انتہائی ہولناک حادثہ پیش آیا، بجری سے بھرا ڈمپر اسکول کے بچوں کے رکشہ پر الٹ گیا جس سے سات بچے بچیاں اور رکشہ ڈرائیور ڈمپر کے نیچے دب کر بری طرح کچل جانے سے جاں بحق ہو گئے۔
واقعات کے مطابق جمعہ کی صبح ظفروال کے نواحی گاؤں سے رکشہ پر 12 طلباء و طالبات علاقے کے مختلف اسکولوں میں آ رہے تھے کہ اچانک سامنے سے آنے والا بجری سے بھرا ہوا ڈمپر بے قابو ہو کر رکشہ پر الٹ گیا ، تمام بچے اور ڈرائیور اس کے نیچے کچلے گئے۔
اس المناک حادثہ کی ذمے داری ڈمپر کے اناڑی ڈرائیور پر ہی ڈالی جا سکتی ہے اور اس کا فوری طور پر احتساب ہونا چاہیے۔ یہ وہی اناڑی ڈرائیور ہیں جو آئل ٹینکڑوں کے ہولناک حادثات کا موجب بنتے ہیں جن میں جاں بحق ہونے والوں کی اگر تعداد کا شمار کیا جائے تو وہ کسی بڑی جنگ میں ہلاک ہونے والوں سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
اب دیکھنے کی یہ بات ہے کہ ان اناڑی ڈرائیوروں کو اتنی بھاری گاڑیوں کو چلانے کی اجازت کس طرح ملتی ہے، جن کے حادثہ میں اتنی زیادہ انسانی جانوں کے اتلاف کا اندیشہ ہوتا ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں جن میں کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہر شامل ہیں‘ یہاں بھی بڑے بڑے ٹرالر اور ڈمپر بلاروک ٹوک چلتے ہیں اور اکثر ٹریفک حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ ٹریفک پولیس انھیں روکتی نہیں ہے۔
ظفر وال میں ہونے والے سانحہ میں معصوم بچوں کی آہ و بکا سن کر مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کام شروع کیا لیکن لوڈ زیادہ ہونے کے باعث مقامی انتظامیہ کو اطلاع دی مگر انتطامیہ کی روائتی بے حسی اور لاپرواہی سے بر وقت بڑی کرین نہ منگوانے کے باعث معصوم بچوں اور رکشہ ڈرائیور نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔
جب بچوں کو نکالا گیا تو رکشہ ڈرائیور سمیت سات بچے دم توڑ چکے تھے۔ رکشہ پر سوار بچوں اور بچیوں کی عمریں پانچ سال سے سولہ سال کے درمیان تھیں جو اپنے والدین کے لیے دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ تھے۔ اس قدر ہولناک حادثہ کی وجہ بننے والا ڈرائیور اجتماعی قتل کا مجرم ہے جس کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔
The post ٹریفک حادثات‘ انسانی جانوں کا ضیاع کب تک؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PXfCaN
via IFTTT
0 Comments