جمعہ کو قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیزی سے شروع ہونے والا اجلاس بادی النظر میں مفاہمت پر ختم ہو گیا، لیکن اس کی مقصدیت اور معنویت کی کوئی اخلاقی اور صائب پارلیمانی بنیاد اگر ہے تو اسے مستحسن اقدام کہنا چاہیے، ایسے ماحول میں جہاں باہمی کشیدگی، محاذ آرائی، تناؤ بہت زیادہ ہے بدگمانی ہے، بد اعتمادی ہے، کیونکہ ایک طرف حکومت نے آرڈیننسز جب کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لی۔
حکومتی اتحادی ایم کیو ایم اور جی ڈی اے نے بھی نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھجوانے کا مطالبہ کر دیا۔ صورتحال بظاہر ناموافق تھی، حکومت نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت 7 نومبر کے اجلاس میں 11 آرڈیننسز منظور کیے تھے، جس پر اپوزیشن نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔
بعد ازاں ایک نتیجہ خیز بات چیت کے بعد سپیکر چیمبر میں ہونے والے مذاکرات میں اپوزیشن نے 9 آرڈیننسز اور حکومت نے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے پر قائل کر لیا۔ آرڈیننسز واپس لینے کا اعلان وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کیا۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق اگر اس مصالحت اور مفاہمت کی بنیاد کشادہ دلی اور سیاسی بلوغت پر ہے تو اس کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے، سیاست دانوں سے زیادہ کس کو ادراک حقیقت ہو سکتا ہے کہ خطے کو درپیش چیلنجز ان حقائق سے بالکل الگ ہیں جن سے قومی سیاسی اور ملکی معیشت نبرد آزما ہے، داخلی تضادات، ان گنت سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل اور باہمی تناؤ نے حکومت اور اپوزیشن کے لیے سیاست کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔
اگر معروضی صورتحال کا غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے تو کوئی ذی شعور ملکی سیاست کے جاری سفر پر اطمینان اور سکون قلب کا اظہار نہیں کر سکتا، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب نئے تنازعات، حادثات، قیاس آرائیاں اور افواہیںنہ جنم لے رہی ہوں، پہلے جے یو آئی کا آزادی مارچ شروع ہوا، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے شمولیت اختیار کرنے کا اجتماعی عندیہ دیا، پھر دھرنے اور مذہبی کارڈ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن اور جے یو آئی کی قیادت سے اعلانیہ اور خفیہ بدگمانیوں اور اختلافات نے سر اٹھانا شروع کیا، آزادی مارچ اختتام پذیر ہوا تو اس کے بعد ملکی شاہراہیں پلان بی کے تحت بند ہونے لگی ہیں، مسلم لیگ ن نے علاج کے لیے سابق وزیر اعظم کے بیرون ملک جانے پر انڈیمنٹی بانڈ کی شرط پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے، ہائی کورٹ نے ای سی ایل کیس پر دائرہ اختیار پر وفاق کا اعتراض مسترد کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت سیاست سے زیادہ اہم ہے، حکومت کو نواز شریف کے عدالتی ریلیف پر کوئی اعتراض نہیں، حکومت نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے قانون میں لچک پیدا کی، انسانی ہمدردی کے تحت ان کے لیے ہر فورم پر سہولتیں پیدا کیں، ان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، وزیراعظم نے کہا کہ شیورٹی بانڈ نہ دینے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے، حکومت نے نواز شریف سے کون سے پیسے مانگ لیے ہیں؟
ادھر وزیر دفاع پرویز خٹک نے اس ڈیولپمنٹ پر اپوزیشن کے فراخدلانہ فیصلے پر شکر گزاری کا اظہار کیا۔ انھوں نے کچھ آرڈیننسز قائمہ کمیٹیوں اور کچھ ایوان میں زیر بحث لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کا ماحول بہتر رکھیں گے اور تمام فیصلے متفقہ ہوں گے، ارکان کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ ن لیگ کے خواجہ آصف نے کہا ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ تمام آرڈیننسز خوش اسلوبی سے واپس لیے جا رہے ہیں، حکومتی فیصلہ خوش آئند ہے، اب کمیٹیاں ان بلوں کو دیکھیں گی اور پھر متفقہ طور پر منظور ہوں گے۔
ایاز صادق نے کہا بحث سے ایوان کا وقار مضبوط ہو گا ، اسد عمر بولے ہم اپنے اپنے موقف پر قائم البتہ ایوان کو شائستگی سے چلانا دونوں اطراف کی ذمے داری ہے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کو متنازع نہیں بنانا چاہتے، حکومت کی عددی اکثریت کا کئی بار اظہار کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پرویز اشرف نے کہا حکومت نے آرڈیننس اور اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد واپس لے کر بڑے دل کا مظاہرہ کیا۔
تحریک انصاف کے اسلم خان اور ن لیگ کے علی گوہر نے ارکان کی دوہری شہریت کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کتنے وزراء، مشیر اور وفاقی سیکریٹریز دہری شہریت رکھتے ہیں؟ وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن کی جانب سے دہری شہریت کا معاملہ زیر بحث آیا تو وزیر مملکت علی محمد خان بولے امید ہے اپوزیشن اس معاملے کو اپنی جماعتوںمیں بھی اٹھائے گی، اہم عہدوں پردہری شہریت کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ۔
انھوں نے تفصیلات جلد پیش کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کوشش ہے منی لانڈرنگ کی رقم جلد نکلوائی جائے، سیاستدانوں ہی نہیں، عام لوگوں نے بھی منی لانڈرنگ کی۔ قادر پٹیل نے بچوں سے زیادتی کے ملزم سہیل ایاز کا سوال اٹھایا تو شیریں مزاری بولیں عالمی بینک کے ملازم نے غلط بیانی کی ، عالمی بینک مشیر خود منتخب کرتا ہے، جس سے وہ بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قانون سازی میں معاونت کے لیے اپنی سربراہی میں ڈرافٹنگ کونسل کے قیام کی منظوری دے دی ۔
سیاسی منظر نامے سے قطع نظر ملکی معیشت تاحال اپنے تعین کردہ اہداف سے دور ہے، پاکستان کے بیرونی قرضے اور واجبات میں 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، بنیادی وجہ بیرونی ادائیگیوں میں بہتری کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ سے لیا گیا قرض ہے تاہم ماہرین نے اضافے کو معمولی قرار دیا ہے، ملک پر مجموعی بیرونی قرضہ 107 ارب ڈالر ہو گیا ہے جب کہ رواں مالی سال 20-2019ء کے پہلے چار ماہ میں خالص براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 65 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
ترجمان وزارت خزانہ عمر حمید کی جانب سے ٹویٹر پیغام میں کہا گیا کہ رواں مالی سال میں ملک میں ہونے والی مجموعی سرمایہ کاری ایک ارب دس کروڑ دالر سے تجاوز کر گئی ہے، ان کا مزید کہنا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں زبردست بہتری کے بعد حکومتی اقدامات پر سرمایہ کاروں میں اعتماد بڑھا ہے۔
سندھ میں ورلڈ بینک کے تعاون سے سولر انرجی پروجیکٹ شروع کیا جائے گا، منصوبہ پر105 میلن ڈالر کی لاگت آئیگی۔ ایوان بالا میں حکومتی سینیٹرز نے کہا ہے کہ معیشت کی سمت درست کرنے کے لیے میثاق معیشت کمیٹی بنائی جائے، معیشت درست سمت میں جا رہی ہے، ایران سے ٹماٹر منگا لیے، قیمتیں جلد گر جائیں گی، تاہم سینیٹ میں اپوزیشن نے مہنگائی سے عوام کی مشکلات بڑھنے کا عندیہ دیا۔
بہر کیف معاشی استحکام کے لیے طبقاتی محرومیوں کے ازالے پر بھی ملک کا دانشور حلقہ اس بات کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ عوام کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام میں شراکت کا راستہ ملنا چاہیے، عوام کو مہنگائی سے نجات ملنے کی ٹھوس تدابیر اور عملی اقدامات کے بغیر معاشی ترقی اور قومی خوشحالی کے سارے دعوے صدا بصحرا ثابت ہونگے، عوام اخباری بیانات پر یقین نہیں کریں گے۔
یہاں ہم قومی مفاہمت اور مصالحت کے مستحسن اشاروں کے سیاق وسباق میں جنوبی افریقہ کے معروف رہنما ڈیسمنڈ ٹوٹو کا ایک قول نقل کرتے ہیں جنہوں نے نیلسن منڈیلا کی قیادت میں قومی مصالحت اور مفاہمت پر کہا تھا کہ معاف و درگزر کرنا، غلطیوں کو بھول جانا اور دشمنوں سے صلح صفائی کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے کی پیٹھ تھپکیں اور کہیں کہ ’’ رات گئی بات گئی ‘‘، اور غلطیوں پر آنکھیں بند کر دیں، بلکہ سچی مصالحت سے وقار نمایاں ہو، فروگزاشتوں، دلی رنجش، دلآزاری، اور سچ کو قتل کرنے کی ساری وارداتیں بے نقاب ہونی چاہئیں مصنوعی مصالحت نمائشی مفامت ثابت ہو گی۔
اس چشم کشا حوالہ سے سیاستدانوں کو ملکی سیاست کا رخ تبدیل کرنے کرنے کا عزم قوم پر ظاہر کر دیناچاہیے، اب ہمیں سیاسی رواداری، افہام و تفہیم کے ساتھ نئے سیاسی تعلقات کارکی طرف پورے جوش وجذبہ سے آگے بڑھنا چاہیے۔
The post سیاسی مصالحت وقت کی اشد ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35dBu4B
via IFTTT
0 Comments